بلدیاتی حکومت کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ لوکل سلف گورنمنٹ جسکو بلدیاتی حکومت بھی کہتے ہیں، اس سے دنیا کی تاریخ میں کیسے پیجیدہ مسائل کئے جا چکے ہیں؟

کراچی والوں کے نزدیک بلدیاتی گورمنٹ کی سب سے اعلی و عمدہ مثال پرویز مشرف کے زیرِ حکومت ایم کیو ایم کی جانب سے مصطفی کمال دور کے ہیں۔ ۲۰۰۲ سے ۲۰۰۷/۸ تک رہنے والی اس بلدیاتی حکومت کے دور میں بلاشبہ کراچی نے ان گنت ترقیں کی منزلیں طے کیں، اور نیچلی یعنی عوامی سطح تک مسائل حل کرنے کے لئے ٹاؤن ناظم اور یونین عہدیدار پر مبنی نظام کو متعارف کرایا گیا۔

مگر ہائے قسمت اس شہر کی کہ اُس کے بعد سے اس شہر کو نا تو ایسا بلدیاتی نظام ملا اور نہ ہی ایسی ترقی اور انفراسٹرکچر۔ شکریہ بجانب سائیں سرکار!

مگر یہ تو اکیسویں صدی ہے، اور دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ بلدیاتی نظام کوئی اچھنبے کی بات نہیں، دنیا بھر میں آج بھی دیحات اور شہروں کے ترقی کے لئے یہی نظام موزوں ہے، اور یہ نظام کوئی نیا تجویز کردہ نہیں بلکہ صدیوں سے رائج ہے۔ بہبود کی ترقی سے لے کر پیجیدہ بحران کے حل تک، دنیا کی تاریخ میں اس نظام کے حوالے سے حیران کن مثالیں موجود ہیں۔

کسی بھی شہر و ملک کیلئے بلدیاتی نظام کیوں ضروری ہوتا ہے، اور اس کی طاقت کے استعمال سے کیسے مسئلے حل کئے جاتے ہیں، اس کی مثال آئیندہ والے حصے میں ملاحظہ کریں۔

روس کا بلدیاتی نظام اور ذیمیسٹوو کا کردار!

روسی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے جس کی کڑی ۳۰۰/۴۰۰ عیسویں سے جا ملتی ہے۔

انقلابِ روس سے پہلے تک روس کی معیشت کا سارا دارومدار زراعت کے شعبے سے منسلک تھا۔ یہ بات ہے انیسویں صدی کی، جب روس کی معیشت کا سارا دارومدار زراعت پر ہونے کے باووجود، وہاں کے کسانوں کی کیفیت غلاموں کی سی تھی۔ سرکار یا زمیندار کو لگان دینا ہو یا فوج کیلئے سپاہی مہییا کرنا، یہ لوگ گویا پس انہی دو باتوں کے لئے پیدا کئے گئے تھے۔ تعلیم کی یہ صورتِحال یہ تھی کی اٹھارویں صدی کے آخر میں ۳ کڑوڑ کی آپادی کیلئے صرف ایک درجن مدرسے تھے جن میں مشکل سے ۳۰۰ طلبہ تعلیم پاتے تھے۔

یورپ سے روز افزوں ارتباط، نئی اصلاحات کی جلا اور صنعت و حرفت اور تجارت کے نشونما نے روس کی شہری آبادی کو فارغ البال اور ذی اثر بنا دیا تھا۔ انیسویں دوسری نصف صدی میں ایک جانب سے انقلابِ یورپ  کی روح انگیز آب و ہوا نے ’’نکولس اول‘‘ کے دماغ کو خائف و پریشان کر رکھا تھا تو دوسری جانب سے اندرونی مسائل کی پیجیدگیوں نے اس مزاج کو درہم برہم کردیا تھا۔

ملک میں باقاعدہ آئینی جدوجہد کے راستے بند تھے جس کی وجہ سے عام عوام میں اس بات کا احساس پیدا ہوگیا تھا کہ رعیت میں سے ہر فرد کے بعض حقوق ایسے ہیں کہ جن کا پاس و لحاظ حکومت کیلئے لازمی ہے۔

اس کے بر عکس روسی حکمران ’’نکولس ‘‘ کی پالیسی قدامت پسندی اور مطلق العنانی کی تھی۔ یہ ان معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی پسند نہیں کرتا تھا اور اصلاح و تبدیلی کے نام سے اس کی پیشانی پر بل پرنے لگتے تھے۔

مگر کیا کیا جائے  کہ جنگِ کریمیا (1853-1856) کی آفتوں نے اس صورتِحال کا بری طرح راز فاش کردیا تھا۔ جنگ کی وجہ سے حکومت کا شیرازہ بکھرنے کو تھا، اور حکومت کا خزانہ خالی ہوچکتا تھا۔ اصلاح و تبدیلی کی ضرورت ہر صیغے اور شعبے میں معلوم ہوتی تھی۔ سڑکیں اور ریلوے کھولنے کے بنانے کیلئے اور نئے کاروبار اور فیکٹریاں کھولنے کیلئے، زراعت کی ترقی دینے کیلئے غرض یہ کہ ہر اس شعبے کو ترقی دینے کے لئے جس سے ملک کی دولت میں اضافہ ہو تبدیلی اور بہتر نظام کی ضرورت تھی۔

جب ملک کو چاروں طرف سے مصیبتوں نے گھیر لیا اور عوام نے بغاوت کا الم بلند کیا تو ’’الیگزینڈر دوؤم‘‘ کو اپنی روشن خیالی اور دور اندیشی کا استعمال کرنا پڑا۔ کسانوں کے روز بہ روز بڑھتے احتجاج کو دیکھ کر اور عوام کو اپنی زندگی امور میں پیجیدگیوں کے پیشِ نظر سڑکوں پہ نکلتا دیکھ کر حکومت کو لوکل سلف گورمنٹ یعنی بلدیاتی حکومت کی طرف توجہ کرنی پڑی۔

1864 میں حکومت نے مقامی معاملات میں اپنے اختیارات محدود کرکے نمائیندگان رعیت کو ایک حد تک خود مختاری دی۔ دیہاتی رقبوں میں تعلیم حفظان صحت، زراعت اور اس قسم کے شعبوں کا انتطام ہر ضلع میں رعیت کے یعنی مقامی لوگوں کے منتخب کئے ہوئے  مقامی بورڈ اور کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا (جسے کراچی کی بلدیات میں یونین کانسلرز اور چئیرمین کیا جاتا ہے)۔

یہ بورڈ اور کمیٹیاں ذی میسٹوز (Zemstvo) کے نام سے موسوم کی گئی تھیں۔ مقامی ضروریات کے لئے محصول لگانے کا اختیار بھی ان کو دیا گیا تھا۔ ہر ضلع کے لئے ایک ذی میسٹوز قائم کیا گیا تھا اور تمام ضلعوں کے ذی میسٹوز کی نگرانی اور ہدایت کے لئے ہر صوبے میں ایک ذی میسٹوز قائم کیا گیا تھا۔ ان اصلاحات کا نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کے مختلف طبقوں میں بجائے علیحدگی اور غیریت کے ملکی معاملات میں ارتباظ اور یکجہتی پیدا ہونے لگی۔ گویا لوگل سلف گورمنٹ نے وہاں مؤثر کام دکھایا جہاں پر جمہوری دستور حکومت کے رائج ہونے کے انداز بھی نہیں پائے جاتے تھے۔

لوکل سلف گورمنٹ (بلدیاتی حکومت) کے رائج ہونے کے چند عرصے بعد ہی ملک میں نمایاں بہتری نظر آنے لگی۔ ملک میں بینک اور مشترکہ سرمایہ کاری کی بہت سی کمپنیاں کھل گئیں، ریلوے لائینیں بننے لگیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں اضافہ ہونے لگا جس سے تجارت کو اور زیادہ فروغ ہوا اور ملک کی مالی حالت بہتر ہونے لگی۔

اس کے علاوہ مقامی حکومت میں خود مختاری حاصل ہونے کا اثر کسانوں پر بھی اچھا پڑا۔ دیہات میں نئے طریقِ زراعت رائج کرنے اور حفظانِ صحت کا انتظام کرنے کے علاوہ ان ذی میسٹوز (یونین کونسلرز) نے تعلیم کی اشاعت میں کوشش بلیغ کی۔ 1874ع میں ابتدائی مدارس کی تعداد ایک درجن سے بڑھ کر ۲۳ ہزار سے زائد تک جا پہنچی تھی جن میں تقریباََ ۱۰ لاکھ طلبہ تعلیم پاتے تھے۔

یہ تھا بلدیاتی نظام یعنی لوکل سلف گورمنت کا اثر جس نے جنگ کی تباہ حال روس کی عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرکے حیران کن طور پر دوبارہ روز مرہ کی زندگی پر لا کھڑا کیا۔ انیسویں صدی کے جنگ سے تباہ حال روسی عوام نے وہ بلدیاتی نظام تجربہ کیا جو آج اکیسویں صدی میں پاکستان کے سب سے بڑے اور فنانشل مگر لاوارث شہر بھی نہ کرسکا ہے۔ ممکن ہے روسی عوام سائیں سرکار کے پہنچ سے باہر جو تھی۔

دنیا بھر کے جو بھی ممالک ہوں گوہا وہ ترقی یافتہ ہوں یہ ترقی کی جانب گامزن، اس کا کوئی میٹروپولیٹن شہر مؤثر بلدیاتی نظام کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ مگر بدقسمتی اس شیر کراچی کی جو تقریباََ ایک ٹریلن روپے ٹیکس کی مد میں دینے کے باوجود، پورے ملک سے روزگار کے سلسلے میں آئے ہوئے لوگوں کو اپنے اندر بسانے کے باوجود بلدیاتی نظام اور بنیادی سہولیت سے محروم ہے۔ چاہے بارش سے ہونے والی ہلاکتیں ہوں یہ اسٹریٹ کریمینلز کے ہاتھوں قتل ہونے والے معصوم شہری، یہ سب ذرہ برابر بھی اہمیت کے ھامل نہیں۔ اور رہا حکومت کا حال تو بھائی اگر مسئلہ کے حل کی بات کروگے تو سندھ دھرتی ماں سے سندھو دیش بن جائیگا، رہا وفاقی حکومت کا حال تو بھائی ہمارا پرائم منسٹر کراچی کے بارے تقریر بہت اچھی کرلیتا ہے، اور صدر پاکستان جسکا تعلق کراچی سے ہے اور جو جرنیل الیکشن کی کمپین میں پی ٹی آئی کو کراچی کے مسئلے کا حل بتا رہا تھا وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے۔

اب کراچی کی عوام کسی روسی حکمران کے آنے کا ہی انتظار کریں!

Leave a Reply