Posts tagged سپارکو

پاکستان بماقبلہ بھارت!

پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت نے چاند پر دوسری مرتبہ اپنا خلائی مشن ’چاندریان‘ بھیجا۔ جسکی ممکنہ لینڈنگ چاند پر گذشتہ ہفتے کی رات ۲ بجے تھی۔ ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک میں ہر بندے کی نظر اور تجسس اس مشن پر تھی، اور آخر کیوں نہ ہو؟ آخر کار بھارت بھی اُن چند ممالک کی فہرست میں آنے والا تھا جنہوں نے کامیابی سے چاند پر اپنے ملک کے جھنڈے گارے ہیں۔

مگر کہانی میں موڑ اُس وقت آیا جب یہ مشن اپنے ممکنہ وقت کو عبور کرگیا، مگر کامیابی کی کوئی کرن نہ نظر آنے لگی اور ارب سے زائد لوگوں کی سانسیں مزید دھڑکنے لگیں۔ جب لوگوں میں تشویش اور غیر یقینی کی فضائیں جنم لینے لگیں تو سب کی نظریں ٹی وی پر اسرو (بھارت کا سائنسی ادارہ) کی نشریات اور اُس میں بیٹھے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی پر لگ گئیں۔

جب اُمید کی کوئی کرن نظر نہ آنے لگی تو تب اسرو کے سربراہ نے قوم کی غیر یقینی کو دور کرتے ہوئے بتایا کہ چاندریان مشن کا سیٹلائیٹ چاند سے صرف دو کلو میٹر دور سگنل کھو بیٹھا جسکی وجہ سے سینٹر سے  رابطہ منقطع ہوگیا۔ اُن کا یہ کہنا تھا اور اسکے ساتھ اربوں لوگوں کی امیدوں کو جیسے ٹھینچ پہنچ گئی ہو۔ مگر جہاں اتنے لوگوں کی اُمیدوں کو ٹھینس پہنچی وہی اسکے پڑوسی ملک ’اسلامی جمہوریہ ہاکستان‘ میں جیسے جشن کا سماء شروع ہوگیا ہو۔

اس جشن کے سماء میں حیران کن طور پر پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ٹیکنولوجی فواد چوہدری پیش پیش تھے۔ جنکی ٹویٹس سے ایسا لگ رہا تھا جیسے بھارت کا مشن پاکستان کے مقابلے میں ناکام ہوگیا ہو۔ وہ بات الگ ہے کہ پاکستان نے اپنا مشن چاند پر بھیجنے کی ابھی تک باقاعدہ صرف نیت ہی کی ہے۔ فواد چوہدری کی ان ٹویٹس نے بلاشبہ پاکستان ٹویٹر فیملی کو دو گرہوں میں تقسیم کردیا، جس میں ایک فواد چوہدری صاحب کے ہم خیال، بھارت کے اس مشن کا مذاق اُڑانے والے اور میمز شئیر کرنے والے جبکہ دوسرا گروہ فواد چوہدری سمیت پاکستانی عوام کو مذاق اُرانے کی بجائے بھارت کے مقابلہ کرنے کا درس دینے والے۔

مذاق اُڑانے دو یار!

خیر! پاکستانی عوام کا بھارت کے ناکام چاندریان مشن پر مذاق اُڑانا بجا ہے۔ اور جو لوگ بھارت سے خلائی فیلڈ میں مقابلے کی بات کر رہے ہیں انہیں بتاتا چلوں کہ مقابلہ اُس وقت کیا جاتا ہے جب دونوں مخالف برابر پلھڑے کے ہوں۔

سچ بات یہ ہے کہ پاکستان کا بھارت سے کوئی مقابلہ بنتا ہی نہیں ہے۔ بھارت دو مرتبہ اپنا مشن چاند پر بھیجنے کی کوشش کرچکا ہے مگر لگتا ہے ہمارے خلائی ادارے سپارکو (پاکستان خلائی و بالا فضائی تحقیقی ماموریہ) نے پاکستانی مشن چاند پر بھیجنے کی ابھی تک صرف نیت ہی کی ہے۔ اور زیادہ پرانی بات نہیں جب پاکستان کی حکومتی پارٹی ’’پی ٹی آئی‘‘ نے اپوزیشن میں رہتے وقت جب اسلام آباد میں ۱۱۴ دن کا دھرنا دیا تھا تو اس دوران ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے اپنا خلائی مشن ’منگلیان‘ کو کامیابی سے مریخ پر بھیجنا کا تجربہ کرلیا تھا۔

گذشتہ دنوں ہونے والا ناکام تجربہ ہی سہی مگر اس کے بعد بھارت نے اپنے آپ کو خلا کی دور میں امریکہ، چائنا، اور روس کے ساتھ شامل کرلیا ہے۔ کیونکہ بھارت کے جانب سے بھیجے جانے والا چاند پر مشن چاندریان کے کُل لاگت صرف ۹۰۰ کڑور تھی، جو دیگر معنوں میں ہالی ووڈ کی فلم ’’انٹرسٹیلر‘‘ کے بجٹ سے بھی کم ہے۔ یوں بھارت نے ایک ساؤتھ پول سے ناکام کوشش کرکے بھی ناسا سمیت دنیا کو حیران کردیا ہے۔

بات کریں پاکستان اور بھارت کے خلائی ادارے کی کُل مقابلے کی، تو فرق صاف عیاں ہے۔ بھارت کے خلائی ادارے اِسرو کے چئیر پرسن کا نام ’’ڈاکٹر کائلا سوادیو سِوان‘‘ ہے، جن کی تعلیم ائیر و اسپیس انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی اور اور تجربہ ۳۵ سالہ ہے۔ جبکہ اس کے بر عکس پاکستان کے خلائی ادارے سپارکو جس کی بنیاد پاکستان کے واحد سائنسی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام نے رکھی تھی، اس کے موجودہ چئیرمین کا نام ’’میجر جنرل امیر ندیم‘‘ ہے۔ جنکی کُل تعلیم ائیروناٹیکل انجینیئرنگ میں (بی ایس) گریجویٹ ہے۔

اب یہاں سوال تو کھڑا ہوتا ہے کہ آخر کار عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے سالانہ بجٹ کی مد میں ۶،۴۷۷ ملین والے خلائی ادارے اسپارکو کی پرفارمنس کیا تسلی بخش ہے بھی یہ نہیں؟ اور اگر نہیں تو، آکر کار ہم اس غریب ملک کے عوام کیے کئی ملین روپے کیوں پانی کی طرح ضائع کر رہے ہیں!

اب آجاتے ہیں سائنسی میدان سے ہٹ کر بھارت سے جنرل پبلک سہولیات کے میدان میں۔ اس پورے سلسلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کے پاکستان کو فی الحال چاند پر نطرے جما کر مشن بھیجنے کے بجائے اپنی نطریں زمین سے لگا کر مشن شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارت نے چاند پر مشن ضرور بھیجا مگر اس سے پہلے اس نے زمین پر عوامی سہولیات کے سارے مشن پار کرلیے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سہولتِ عامہ کے شعبے میں بھارت میں دہلی، بمبئی، کولکتہ سمیت اپنے دس بڑے شہروں میں ریلوے میٹرو کا جال بچھا چکا ہے،جس سے روزانہ لاکھوں کڑوڑوں لوگ استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کا کوئی شہر اس سہولت کا حامل نہیں (لاہور کا اورنج لائن ریلوے میٹرو منصوبہ بھی نا مکمل اور پنجاب حکومت کی بے حسی کے باعث تاخیر کا شکار ہے)۔

اور تو اور بات جب پبلک ٹرانسپورٹ کی شروع ہو ہی گئی ہے تو بتاتا چلوں کے نہ صرف ریلوے میٹرو بلکہ اسکے ساتھ ساتھ  دورِ جدید کا اربن ترانزٹ بسز کا منصوبہ بھی بھارت کے ۱۸ شہروں مہں چل رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کی بد نصیبی کا عالم یہ ہے پنجاب کے ۴ شہروں میں میٹروں بس منصوبہ کام کر رہا ہے، مگر اسکی شہ رگ سمجھے جانے والا فنانشل حب کراچی کسی بھی قسم کے پبلک ٹرانسپورٹ سے عاری ہے۔

اب بات کرتے ہیں تعلیم کے نطام کے حوالے سے بالخصوص بھارت اور پاکستان کی جامعات کا موازنہ کرکے۔ تو جناب تعلیم کے شعبے میں بھی یہ حال ہے کہ بھارت کی سب سے بہترین جامعہ کا نمبر دنیا کی ٹاپ ۱۵۰ جامعات میں ہے جبکہ پاکستان کا نمبر ٹاپ ۴۰۰ جامعات میں ہے۔

ٹیکنولوجی کا حب کہلانے والا بھارت، آئی ٹی کے شعبے میں اس طرح مہارت دکھا رہا ہے کہ ڈیرھ ارب کی آبادی والا یہ ملک پے پال جیسے جدید ای منے ٹرانسفر سسٹم، دنیا کا سب سے بڑا ایمیزون اسٹور، اور موبائل پیمنٹ سسٹم جس میں انکی مقامی موبائل اپلیکیشن ’’پے ٹی ایم‘‘ کا سکا چلتا ہے، وغیرہ سے لیث ہے۔

اور جب بات آئے ہمارے ملک پاکستان کی تو اپنے اندر دنیا کے دوسرے نمبر پر فری لانسرز سمونے والا یہ ملک، پے پال، ای منی سسٹم اور امیزون جیسی سہولتوں سے عاری ہے۔

تو بجائے اسکے کے ہم ٹرین ڈالر کی اکانامی والے بھارت کی چاند پر مشن بھیجنے کی کوشش میں خود بھی چاند پر پہنچنے کے خواب دیکھیں، اس سے زیادہ ضروری ہے کہ زمین پر رہتے ہوئے بھارت کا مقابلہ کریں۔ کیونکہ ورنہ آج بھارت نے اپنا صرف ناکام مشن چاند پر بھیج کر دنیا کو حیران کیا ہے، ۲۰۲۰ میں وہ ہوائی جہاز کی رفتار سے چلنے والی دنیا کے چند ممالک میں ’’ہائیپر لوپ‘‘ ٹرین کا افتتاح کرکے ہمیں اس دور سے بھار کردے گا۔

اب بچا ہمارے پاس ایک نعرہ جس میں ہم نمبر ون ہے، لیکن کیا کریں وزیر خارجہ کے مطابق جنگ کوئی آپشن نہیں!

مزید پڑھئیے:

مہاجروں کا پیغام، زرداری اینڈ کمپنی کے نام۔۔۔