Posts in سیاست

مولانا کا آزادی مارچ اور آزادی۔۔۔؟

پاکستان میں ایک مرتبہ پھر موسمِ دھرنا آنے کو ہے۔ ایسا لگ رہا ہے ہم ۲۰١۴ میں جی رہے ہیں۔ جس طرح ۲۰١۴ میں عمران خان اور اُن کی جماعت چودہ ماہ کی نومولود ن لیگ کی حکومت کے خلاف دھرنا دینے کی تیاری کر رہی تھی عین اُسی طرح ہی عمران خان کو بھی حکومت ملنے کے ١٥ ماہ بعد نئے دھرنا کا سامنا ہے۔ گویا یہ کہنا بلکل بھی غلط نہ ہوگا کہ خان صاحب نے جو بویا وہی کاٹنے جا رہے ہیں۔

لیکن اس مرتبہ دھرنے کی رہنمائی کوئی جذباتی سیاست دان یہ مشتعل عوامی گروہ نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کرنے کو ہے جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اُنکی پارٹی ہمیشہ دائیں بازو کی جماعت رہی ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو اور کسی کی بھی ہو وہ ہمیشہ مفاہمت کے تحت حکومت کے ساتھ جُڑ ہی جاتے ہیں۔

یہ اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کے مذہبی حلقے کے سب سے قدآور اور مدبر سیاستدان مولانا فضل الرحمان ہیں جنہوں نے اکتوبر کے اختتام میں حکومت کو گھر بھیجنے تک دھرنا دینے کی ٹھان لی ہے۔ مولانا کی اسٹریٹ پاور سے کسی کو کوئی انکار نہیں مگر حیران کن امر یہ ہے کہ مولانا کئی دہائیوں سے سیاست انجام دے رہے ہیں اور آج تک دھرنا احتجاج وغیرہ مولانا کی خلاف طبیعت ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے بر عکس مولانا نے ہمیشہ میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرنے کو ہی ترجیح دی ہے، مگر اللہ جانے مولانا اس دفعہ سب کو حیرن کرنے کے موڈ میں ہیں۔

جہاں تک حکومت کو گھر بھیجنے کی بات ہے، تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں حکومت کو گرانا یا گھر بھیجنا حکومت چلانے سے زیادہ آسان ہے، اور پاکستان کی تاریخ ایسے بے شمار قصوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مولانا بھی کسی نہ کسی طرح اس حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوجائینگے؟ اور اگر ہاں تو وہ کس طرح؟ اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے دیگر سیاسی اور اپوزیشن کی پارٹیز کو چھوڑ حکومت سے آزادی لینے کا بیڑا مولانا فضل الرحمان نے ہی کیوں اُٹھایا ہے؟

اسکا آسان جواب یہ ہے کہ اگر مولانا کے پاس سیاسی طور پر حیات رہنے کا موقع اگر کوئی ہے تو وہ یہ موجودہ لمحہ ہے، کیونکہ گذشتہ الیکشن کے بعد مولانا کا اسمبلی سے نکل جانا(گو کہ الیکشن کی شفافیت پر ہر ذی شعور بندے کو سوال ہے) اس بات کی نشاندہی تھی کہ آنے والے دو تین سالوں وہ سیاسی طور پر غیر متعلقہ ہونے والے ہیں جیسے آج عوامی نیشنل پارٹی ہوچکی ہے۔ لہذا اگر وہ ملکی سیاست میں اپنا دخل انداز چاہتے ہیں تو انہیں ہر صورت کوئی ایسا پولیٹیکل اسٹنٹ چاہئے جس سے وہ شہ سرخیوں میں بھی رہیں اور اخباروں اور ٹی وی کی زینت بھی بنے رہیں جسکی تلاش میں وہ اسلام آباد کا رخ کر رہے ہیں۔

گویا اگر دھرنا ناکام بھی ہو جس کا مطلب حکومت موجودہ حکومت چلتی بھی رہے تو کم از کم اس حکومت کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر دیے جانے والے دھرنے سے مولانا کی سیاسی طور پر فیولنگ ہوسکتی ہے جیسی پی ٹی آئی کی ۲۰١۴ کے دھرنے میں ہوئی تھی۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ آزادی مارچ سے ملنے والی آزادی کے خود امکانات کتنے کوشاں ہے؟ کیا مولانا وہ آشرواد حاصل کرلینگے جس کو پاکستان کی حکومت گرانے کے لئے لازمی سمجھا جاتا ہے؟ یہ پھر مولانا کو اسی آشرواد کو دینے کے لئے اسلام آباد بلایا جا رہا ہے؟ مولانا کے دھرنے سے کچھ ایسے نقطے جڑے ہیں جن پر نظر نہ ڈالنا بیوقوفی ہوگی۔

مولانا کے علاوہ دیگر اپوزیشن کا یہ خیال تھا کہ آزادی مارچ کو دسمبر تک کے لئے مؤخر کردینا چاہئے… اس کے بعد باقاعدہ حکومت کو گھر بھیجنے کی تحریک کو عملی جامہ پہنانا چاہئے جس سے مولانا نے اتفاق نہ کیا اور اپنا آزادی مارچ اکتوبر کے اختتام میں ہی رواں کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن آخر اپوزیشن دسمبر کے مہینے پر اتنا زور کیوں دے رہی تھی؟ ایسا کونسا راز ہے جسکے لئے اپوزیشن دسمبر تک انتظار کرنا چاہتی ہے؟ تو جواب ہے ایکسٹینشن! جی ہاں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنی مدت ملازمے پوری کیے تین سال آئیندہ مہینے نومبر میں ہونگے جس کے بعد وہ حکومت کی جانب ملنے والے ایکسٹینشن کی مد میں مزید تین سال کیلئے پاکستان کی آرمی کے سپہ سالار بنیں گے۔ لہذا اپوزیشن کا ماننا ہے جو کہ کسی صورت درست بھی ہے کہ کیونہ دھرنا دسمبر تک مؤخر کردیا جائے تاکہ اصل حکمران برقرار رہیں اور خان اور اُسکی گورمنٹ کی چھٹی ہوجائے۔ مگر لگتا کچھ اس طرح سے ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس سارے کھیل کو دوسری جانب سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ شاید سمجھ رہے ہیں کہ اگر اکتوبر میں حکومت کے خلاف کمر کس لی جائے تو وہ طبقہ جو اہکسٹینشن سے نا خوش ہے وہ کسی حد تک اپنا جھکاؤ اس دھرنے کی طرف کریگا، اور اس طرح مولانا اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اب اس سارے واقعات کے صرف دو پہلو ہیں، اول تو یہ کہ نکے دا ابا کسی صورت نہیں چاہینگے کہ حکومت کا خاتمہ کیونکہ اس سے انکے جاری ہونے والے ایکسٹینشن پر عملدرآمد میں مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے اور غیر یقینی کی صورت جنم لے سکتی ہے کہ آیا پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والا ایکسٹینشن کے نوٹیفکیشن پر کوئی اور حکومت عمل کرے گی یا نہیں۔ اب رہا دوسرا پہلو جو صرف اسی صورت عمل پذیر ہوسکتا ہے جب حکومت کا خاتمہ ہو‍۔ اور اگر فرض کرلیا جائے کا حکومت کا خاتمہ اس دھرنے سے ہوجائیگا تو آخر اس سے نتائج کیا اخذ کیے جائیں گے؟ اگر تو حکومت گر جانے کے بعد فوری الیکشن ہی ہونے ہیں تو پھر انتخابی اصلاحات کے بغیر اگلے الیکشن کا نتیجہ بھی سال ۲۰١۸ جیسا ہی ہوگا۔ اور اس سے بھی بڑا سوال اس الیکشن کی نگرانی اور اصلاحات کون کریگا؟ یا پھر مولانا نے دھرنا سے نظامَ حکومت مفلوج کردیا اور ساتھ ساتھ حکومت نے بھی نا مانی تو اس سیاسی بحران کا حل کیسے نکلے گا؟ یا پھر ماضی کی طرح جس میں تحریک نظام مصطفی وغیرہ کے احتجاج کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کی طرح قوم ایک اور مارشل لاء کی صورت میں "میرے عزیز ہم وطنو! ” سنے گی؟

خیر نتیجہ جو بھی ہو قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو۔ کیونکہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے منعقد کیے جانے والے دھرنے اور احتجاج سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ آرگنائزڈ اور جمِ غفیر پر ہوتے ہیں، لہذا ان کی طاقت اور اثر کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے زیادہ ہوتا ہے۔

ایک اور امر اس دھرنے سے متعلق جے یو آئی ایف کی جانب سے سیاسی مسائل کی بجائے عمران خان اور انکی حکومت کے خلاف مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے یہ روایت بن گئی ہے کہ کسی بھی حریف کو زمین بوس کرنا ہو تو اس کے خلاف مذہب کا استعمال شروع کردو جس میں توہینِ مذہب سے لے کر یہودی ایجنٹ تک کے فتوے بلا دریغ جاری کرنا ہے۔ اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مذہب کے بے جا اور غلط استعمال کے نتیجے میں پاکستان نے کس قدر مذہبی انتہاپسندی کا مظاہرہ دیکھا ہے۔ پھر چاہے وہ احسن اقبال ہوں یا جنید جمشید یا پھر امجد صابری وغیرہ ہر کوئی اس آگ کا شکار بن چکا ہے۔

لہذا اگر مولانا اپنے آپ کو سیاسی بالغ اور ایک مدبر سیاستدان سمجھتے ہیں تو انہیں مذہب کے استعمال کی بجائے ان اہم نکتوں کا اٹھانا چاہیے جسکی موجودہ حکومت نے دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں ہیں۔ ورنہ مذہب کے استعمال کے ذریعے حکومت گرانا کوئی بڑی بات نہیں۔

اسی مذہب کی آگ کا استعمال کرکے ہندوتواؤں نے بابری مسجد شہید کی تھی۔ خمینی نے ایران کا انقلاب برپا کیا تھا، ہٹلر نے یہودیوں کا صفایا شروع کیا تھا، اور پاکستان میں مسلمانوں نے آپس میں فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں ایک دوسرے کو قتل کیا تھا، اب مولانا عمران خان کو یہودیوں قادیانیوں کا ایجنٹ کہہ کر حکومت گرادیں تو کوئی کمال کی بات نہیں۔

چنانچہ امید کرتا ہوں کہ مولانا اہم سیاسی اور آئینی جدوجہد کے پہلؤں کو اجاگر کرکے حکومت کے خلاف مارچ کرینگے اور مجھ سمیت کئی اور لوگوں کو حیران کرکے خود اپنے آپ کو مینسٹریم سیاست کا حصہ بنائیئنگے۔ ایک اور بات یہ کہ اگرچہ مولانا کے پاس اس دھرنے میں کچھ کھونے کے لئے نہیں مگر صورتحال نازک ضرور ہے۔ کیونکہ اگر مولانا اپنے مقاصد حاصل کرنے مین ناکام ہوئے تو اس ناکامی کا سارا ملبہ مولانا کی سیاسی کیرئیر پر ہی گرے گا، اور اگر مولانا کامایاب ہو بھی گئے تو اس کامیابی کے سب سے بڑے شئیر ہولڈر مسلم لیگ ں اور پی پی پی ہونگے۔ مجھ جیسے سیاسی بےوقوف کے نزدیک مولانا کے دھرنے سے مولانا کو اتنا یی فائدہ ہوگا جتنا کراچی کو ہزار ارب ٹیکس کی مد میں دینے کے بعد ہوتا ہے۔

مزید پڑھئیے:

بلدیاتی حکومت کی طاقت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟

 

پاکستان بماقبلہ بھارت!

پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت نے چاند پر دوسری مرتبہ اپنا خلائی مشن ’چاندریان‘ بھیجا۔ جسکی ممکنہ لینڈنگ چاند پر گذشتہ ہفتے کی رات ۲ بجے تھی۔ ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک میں ہر بندے کی نظر اور تجسس اس مشن پر تھی، اور آخر کیوں نہ ہو؟ آخر کار بھارت بھی اُن چند ممالک کی فہرست میں آنے والا تھا جنہوں نے کامیابی سے چاند پر اپنے ملک کے جھنڈے گارے ہیں۔

مگر کہانی میں موڑ اُس وقت آیا جب یہ مشن اپنے ممکنہ وقت کو عبور کرگیا، مگر کامیابی کی کوئی کرن نہ نظر آنے لگی اور ارب سے زائد لوگوں کی سانسیں مزید دھڑکنے لگیں۔ جب لوگوں میں تشویش اور غیر یقینی کی فضائیں جنم لینے لگیں تو سب کی نظریں ٹی وی پر اسرو (بھارت کا سائنسی ادارہ) کی نشریات اور اُس میں بیٹھے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی پر لگ گئیں۔

جب اُمید کی کوئی کرن نظر نہ آنے لگی تو تب اسرو کے سربراہ نے قوم کی غیر یقینی کو دور کرتے ہوئے بتایا کہ چاندریان مشن کا سیٹلائیٹ چاند سے صرف دو کلو میٹر دور سگنل کھو بیٹھا جسکی وجہ سے سینٹر سے  رابطہ منقطع ہوگیا۔ اُن کا یہ کہنا تھا اور اسکے ساتھ اربوں لوگوں کی امیدوں کو جیسے ٹھینچ پہنچ گئی ہو۔ مگر جہاں اتنے لوگوں کی اُمیدوں کو ٹھینس پہنچی وہی اسکے پڑوسی ملک ’اسلامی جمہوریہ ہاکستان‘ میں جیسے جشن کا سماء شروع ہوگیا ہو۔

اس جشن کے سماء میں حیران کن طور پر پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ٹیکنولوجی فواد چوہدری پیش پیش تھے۔ جنکی ٹویٹس سے ایسا لگ رہا تھا جیسے بھارت کا مشن پاکستان کے مقابلے میں ناکام ہوگیا ہو۔ وہ بات الگ ہے کہ پاکستان نے اپنا مشن چاند پر بھیجنے کی ابھی تک باقاعدہ صرف نیت ہی کی ہے۔ فواد چوہدری کی ان ٹویٹس نے بلاشبہ پاکستان ٹویٹر فیملی کو دو گرہوں میں تقسیم کردیا، جس میں ایک فواد چوہدری صاحب کے ہم خیال، بھارت کے اس مشن کا مذاق اُڑانے والے اور میمز شئیر کرنے والے جبکہ دوسرا گروہ فواد چوہدری سمیت پاکستانی عوام کو مذاق اُرانے کی بجائے بھارت کے مقابلہ کرنے کا درس دینے والے۔

مذاق اُڑانے دو یار!

خیر! پاکستانی عوام کا بھارت کے ناکام چاندریان مشن پر مذاق اُڑانا بجا ہے۔ اور جو لوگ بھارت سے خلائی فیلڈ میں مقابلے کی بات کر رہے ہیں انہیں بتاتا چلوں کہ مقابلہ اُس وقت کیا جاتا ہے جب دونوں مخالف برابر پلھڑے کے ہوں۔

سچ بات یہ ہے کہ پاکستان کا بھارت سے کوئی مقابلہ بنتا ہی نہیں ہے۔ بھارت دو مرتبہ اپنا مشن چاند پر بھیجنے کی کوشش کرچکا ہے مگر لگتا ہے ہمارے خلائی ادارے سپارکو (پاکستان خلائی و بالا فضائی تحقیقی ماموریہ) نے پاکستانی مشن چاند پر بھیجنے کی ابھی تک صرف نیت ہی کی ہے۔ اور زیادہ پرانی بات نہیں جب پاکستان کی حکومتی پارٹی ’’پی ٹی آئی‘‘ نے اپوزیشن میں رہتے وقت جب اسلام آباد میں ۱۱۴ دن کا دھرنا دیا تھا تو اس دوران ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے اپنا خلائی مشن ’منگلیان‘ کو کامیابی سے مریخ پر بھیجنا کا تجربہ کرلیا تھا۔

گذشتہ دنوں ہونے والا ناکام تجربہ ہی سہی مگر اس کے بعد بھارت نے اپنے آپ کو خلا کی دور میں امریکہ، چائنا، اور روس کے ساتھ شامل کرلیا ہے۔ کیونکہ بھارت کے جانب سے بھیجے جانے والا چاند پر مشن چاندریان کے کُل لاگت صرف ۹۰۰ کڑور تھی، جو دیگر معنوں میں ہالی ووڈ کی فلم ’’انٹرسٹیلر‘‘ کے بجٹ سے بھی کم ہے۔ یوں بھارت نے ایک ساؤتھ پول سے ناکام کوشش کرکے بھی ناسا سمیت دنیا کو حیران کردیا ہے۔

بات کریں پاکستان اور بھارت کے خلائی ادارے کی کُل مقابلے کی، تو فرق صاف عیاں ہے۔ بھارت کے خلائی ادارے اِسرو کے چئیر پرسن کا نام ’’ڈاکٹر کائلا سوادیو سِوان‘‘ ہے، جن کی تعلیم ائیر و اسپیس انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی اور اور تجربہ ۳۵ سالہ ہے۔ جبکہ اس کے بر عکس پاکستان کے خلائی ادارے سپارکو جس کی بنیاد پاکستان کے واحد سائنسی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام نے رکھی تھی، اس کے موجودہ چئیرمین کا نام ’’میجر جنرل امیر ندیم‘‘ ہے۔ جنکی کُل تعلیم ائیروناٹیکل انجینیئرنگ میں (بی ایس) گریجویٹ ہے۔

اب یہاں سوال تو کھڑا ہوتا ہے کہ آخر کار عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے سالانہ بجٹ کی مد میں ۶،۴۷۷ ملین والے خلائی ادارے اسپارکو کی پرفارمنس کیا تسلی بخش ہے بھی یہ نہیں؟ اور اگر نہیں تو، آکر کار ہم اس غریب ملک کے عوام کیے کئی ملین روپے کیوں پانی کی طرح ضائع کر رہے ہیں!

اب آجاتے ہیں سائنسی میدان سے ہٹ کر بھارت سے جنرل پبلک سہولیات کے میدان میں۔ اس پورے سلسلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کے پاکستان کو فی الحال چاند پر نطرے جما کر مشن بھیجنے کے بجائے اپنی نطریں زمین سے لگا کر مشن شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارت نے چاند پر مشن ضرور بھیجا مگر اس سے پہلے اس نے زمین پر عوامی سہولیات کے سارے مشن پار کرلیے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سہولتِ عامہ کے شعبے میں بھارت میں دہلی، بمبئی، کولکتہ سمیت اپنے دس بڑے شہروں میں ریلوے میٹرو کا جال بچھا چکا ہے،جس سے روزانہ لاکھوں کڑوڑوں لوگ استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کا کوئی شہر اس سہولت کا حامل نہیں (لاہور کا اورنج لائن ریلوے میٹرو منصوبہ بھی نا مکمل اور پنجاب حکومت کی بے حسی کے باعث تاخیر کا شکار ہے)۔

اور تو اور بات جب پبلک ٹرانسپورٹ کی شروع ہو ہی گئی ہے تو بتاتا چلوں کے نہ صرف ریلوے میٹرو بلکہ اسکے ساتھ ساتھ  دورِ جدید کا اربن ترانزٹ بسز کا منصوبہ بھی بھارت کے ۱۸ شہروں مہں چل رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کی بد نصیبی کا عالم یہ ہے پنجاب کے ۴ شہروں میں میٹروں بس منصوبہ کام کر رہا ہے، مگر اسکی شہ رگ سمجھے جانے والا فنانشل حب کراچی کسی بھی قسم کے پبلک ٹرانسپورٹ سے عاری ہے۔

اب بات کرتے ہیں تعلیم کے نطام کے حوالے سے بالخصوص بھارت اور پاکستان کی جامعات کا موازنہ کرکے۔ تو جناب تعلیم کے شعبے میں بھی یہ حال ہے کہ بھارت کی سب سے بہترین جامعہ کا نمبر دنیا کی ٹاپ ۱۵۰ جامعات میں ہے جبکہ پاکستان کا نمبر ٹاپ ۴۰۰ جامعات میں ہے۔

ٹیکنولوجی کا حب کہلانے والا بھارت، آئی ٹی کے شعبے میں اس طرح مہارت دکھا رہا ہے کہ ڈیرھ ارب کی آبادی والا یہ ملک پے پال جیسے جدید ای منے ٹرانسفر سسٹم، دنیا کا سب سے بڑا ایمیزون اسٹور، اور موبائل پیمنٹ سسٹم جس میں انکی مقامی موبائل اپلیکیشن ’’پے ٹی ایم‘‘ کا سکا چلتا ہے، وغیرہ سے لیث ہے۔

اور جب بات آئے ہمارے ملک پاکستان کی تو اپنے اندر دنیا کے دوسرے نمبر پر فری لانسرز سمونے والا یہ ملک، پے پال، ای منی سسٹم اور امیزون جیسی سہولتوں سے عاری ہے۔

تو بجائے اسکے کے ہم ٹرین ڈالر کی اکانامی والے بھارت کی چاند پر مشن بھیجنے کی کوشش میں خود بھی چاند پر پہنچنے کے خواب دیکھیں، اس سے زیادہ ضروری ہے کہ زمین پر رہتے ہوئے بھارت کا مقابلہ کریں۔ کیونکہ ورنہ آج بھارت نے اپنا صرف ناکام مشن چاند پر بھیج کر دنیا کو حیران کیا ہے، ۲۰۲۰ میں وہ ہوائی جہاز کی رفتار سے چلنے والی دنیا کے چند ممالک میں ’’ہائیپر لوپ‘‘ ٹرین کا افتتاح کرکے ہمیں اس دور سے بھار کردے گا۔

اب بچا ہمارے پاس ایک نعرہ جس میں ہم نمبر ون ہے، لیکن کیا کریں وزیر خارجہ کے مطابق جنگ کوئی آپشن نہیں!

مزید پڑھئیے:

مہاجروں کا پیغام، زرداری اینڈ کمپنی کے نام۔۔۔

مہاجروں کا پیغام، زرداری اینڈ کمپنی کے نام۔۔۔

نوٹ:

اس بلاگ کی باقاعدہ شروعات کرنے سے پہلے، میں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کے میں لسانیت کی بنیاد پر تفریق پر یقین نہیں رکھتا اور اس کو کسی بھی ملک کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتا ہوں۔ مگر اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کسی بھی لسانی طبقے پر ہونے والے ظلم، تعصب اور نا انصافی پر آنکھیں بند کرلی جائیں۔

ساتھ ہی ساتھ میری اس تحریر کا نشانہ ہرگز ہمارے سندھی بھائی نہیں بلکہ پی پی پی اور آصف زرداری ہیں۔ چونکہ عام طور پر تاثر ابھرا ہوا ہے کہ جب کوئی مہاجروں کی حقوق کی بات کرے تو اسکا مطلب وہ سندھی بھائی سے دشمنی رکھتا ہے۔ جبکہ ایسا بلکل بھی نہیں۔ سندھی ہمارے اتنے ہی بھائی جتنا کہ کوئی اور۔ کراچی اور پاکستان میں رہنے کا حق اُنکا بھی اتنا ہی ہے جِتنا کسی اور کا۔ لہٰذا تحریر کو شروع کرنے سے پہلے اِن دونوں ابہاموں کو دور کرتا چلوں۔

گزشتہ دنوں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ’انڈیا کے کشمیر سے متعلق آئین میں ترمیم‘ کے حوالے سے پارلیمان کا ایک جوائنٹ سیشن بلایا گیا۔ جس میں کشمیر کے حوالے سے کیا ایکشن لیا جائے کے علاوہ ہر چیز پر بات ہوئی۔ اسی جوائنٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سابق صدر اور جیل کاٹنے کے باوجود پروڈکشن آرڈرز کے تحت اسمبلی میں موجود ’’آصف علی زرداری‘‘ نے مہاجروں پر طنز کستے ہوئے کہا کہ ’پاکستان آپ نے نہیں، ہم نے بنایا ہے۔ آپ لوگ وہاں سے بھاگ کر آئے تھے، اور ہم نے آپ لوگوں کو پالا۔

یہ کوئی پہلے مرتبہ نہیں کہ کسی نے مہاجروں کے خلاف اس طرح کی بات کری ہو، بلکہ  اس سے پہلے زرداری صاحب کے علاوہ پی پی پی کے دیگر لیڈران  بھی اس نوعیت کے بیان سے چکے ہیں جس میں عموماََ کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے جس میں ذولفقار مرزا، مراد علی شاہ، سہیل انور سیال  شامل ہیں۔

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ۷۰ سال ہوگئے، لیکن خدا جانے آج بھی مہاجروں کی شناخت اتنی تذبذب کا شکار کیوں ہے؟ نا جانے کیوں آج بھی ملک میں ایک طبقہ مہاجروں کی قربانیوں کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں۔ اور سونے پہ سہاگا تو یہ کہ مہاجروں کی ان سب غیر معمولی قربانیوں کے باوجود بھی آج بھی اِن کے ساتھ زندگے کے دیگر شعبوں میں دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک ہوتا ہے۔

سرکاری نوکریوں سے لیکر سیاست تک، ریاست کا برتاو مہاجروں کے ساتھ الگ اور باقی شہریوں کے ساتھ الگ پایا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی زندہ مثال محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ پیش آنے والا ریاست کا ناروا سلوک ہے جسکی نشاندہی وہ خود ہی متعدد ٹی وی پروگراموں میں کرچکے ہیں۔ ملاحظہ کیجئیے:

یہ ویڈیو خاص کر ان لوگوں کیلئے بھی ہے جو یہ کہتے ہیں مہاجر مہاجر نہیں بلکہ پاکستانی ہیں، اور مہاجر لفظ کا استعمال تعصب کو ہوا دیتا ہے۔ ان سے اس ویڈیو کے ذریعے میرا چھوٹا سا سوال۔۔۔ کیا عبدالقدیر خان بحیثیتِ پاکستانی اس سلوک کے حقدار تھے؟

اسی طرح کراچی آپریشن کی آڑ میں جس طرح انسانی حقوق کی پامالی ایک مخصوص طبقے کے ساتھ دیکھنے میں آئے کسی اور کے ساتھ دیکھنے میں نہیں آئی۔ اور وہ بھی عین اُس وقت جب اس شہر میں عزیر بلوچ جیسے خطرناک دہشتگرد بھی موجود ہوں۔

ایم کیو ایم کا مطالبہ تھا کے آپریشن کی آر میں کہیں بے گناہ نوجوانوں کو بھی جبری تشدد اور ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن اس وقت ہر عام شہری کو یہی لگ رہا تھا کے متحدہ کا یہ دعویٰ کسی ڈھونگ سے کم نہیں اور دہشتگردوں کو سافٹ کارنر دینے کی ایک سازش ہے۔

پھر پورے پاکستان نے دیکھا کے کس طرح اچانک ایم کیو ایم کے لیڈر فاروق ستار کے کارڈینیٹرر ’’آفتاب احمد‘‘ کو رینجرز گرفتار کرکے لے گئے جس کے بعد انہیں ماورائے عدالت وتل کردیا گیا، جسکے بیہمانہ تشدد کی تصویریں سوشل پیڈیا پر گردش بھی کرتی رہیں جس کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقاب کا بھی حکم دیا اور معاملہ رفہ دفعہ ہوگیا۔ بھلا آرمی چیف کی یقین دہانے دِلانے سے کیا معاملہ حل ہوجاتا ہے؟ نقیب اللہ محسود کے کیس کو ہی دیکھ لیں!

 

aftab ahmed

مندرجہ بالا تصویر فاروق ستار کے کارڈینیٹر آفتاب احمد کی مسخ شدہ لاش کی ہے۔

اس کے بعد آجاتے ایک ایسے واقعے پر جو اگر کسی اور ملک مین رونما ہوتا تو قیامت برپا کردیتا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے جامعہ کراچی کے ایک بزرگ پروفیسر جنکا نام پروفیسر حسن ظفر عارف ہے انکو صرف اسلئے بیہمانہ طریقے سے حراست میں لیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنا تعلق متحدہ کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے؟ رینجرز کی حراست اور اُسکے بعد پُراسرار موت۔۔۔ اور ہمیشہ کی طرح دیسی لبرلز اور فلسفیوں کو خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔

prof hasan zafar arif

اسکےعلاوہ متحدہ کے لیڈرز ہوں یا فیصل رضا عابدی یا کراچی سے تعلق رکھنے والے کوئی اور۔۔۔ تاریخ گواہ ہے ک جو مثالیں ریاست کی جانب سے کراچی میں نظر آئیں ایسی کسی اور شہر میں نہ آسکی۔

اب آجاتے ہیں اس دعوے کی حقیقت پر جو آصف علی زرداری صاحب نے اسمبلی کے فلور پر کیا۔ کہ کیا مہاجر بھاگ کر آئے تھے؟ کیا پاکستان انہوں نے نہیں بنایا؟ آئیں اس دعوے کی حقیقت کا تاریخ کے آئینے میں جائزہ لیں۔

پاکستان مہاجروں نے نہیں بنایا بلکہ وہ تو بھاگ کر آئے؟

 

پاکستان مہاجروں نے نہیں بلکہ کسی اور نے بنایا اور بلکہ مہاگر بھاگ کر آئے تھے۔ ایسا ’’بمبینو سنیما کی کسی فلم میں تو ہوسکتاہے جبکہ حقیقت میں نہیں‘‘۔

 

پاکستان مہاجروں نے نہیں بلکہ کسی اور نے بنایا اور بلکہ مہاگر بھاگ کر آئے تھے۔ ایسا بمبینو سنیما کی کسی فلم میں تو ہوسکتاہے جبکہ حقیقت میں نہیں۔ برِ صغیر پاک و ہند کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا ان مہاجرین کے بغیر ممکن تھا جنہوں نے اپنی سیاسی صلاحیتوں اور جان و مال کا نذرانہ پیش کرکے پاکستان کو دنیا کو نقشے پہ نمودار کیا۔

علی گڑھ مومنٹ ہو یا تحریکِ پاکستان ہا پھر آل انڈیا مسلم لیگ۔۔۔ سر سید احمد خان ہو یا محمد علی جناح ہو یا پھر لیاقت علی خان۔۔۔ جوہر برادران یا سر آغا خان۔۔۔ یا پھر کاروباری شخصیات کی صورت میں۔۔۔ تاریخ نے دیکھا کہ مہاجروں نے جو اس علاقے میں ہر گز نہ رہتے تھے جسکو آج کے دور میں پاکستان کہتے ہیں انہوں نے کس قسم کی قربانیاں پاکستان بنانے کیلئے پیش کیں۔ اس کے مقابلے میں زرداری صاحب ہی بتادیں کے اُنکے لوگوں نے کونسا ملک آزاد کروایا؟ بنگلہ دیش؟

آئیے چلتے ہیں بمبینو سنیما کی فلوپ فلم کے دوسرے پارٹ پر۔۔۔ جس میں زرداری صاحب نے یہ کہا کے بھاگ کر آنے والے مہاجرین کو ہم نے بناہ دی۔۔۔ آئیے اس دعوے کی حقیقت کو بھی ٹٹول لیتے ہیں۔

حجرت کرکے آنے والے مہاجرین کو کس نے پالا اور پناہ دی؟

بھارت سے حجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ تھی۔ جس میں سے تقریباََ آدھے لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا جس میں بچے بھوڑے اور عورتیں شامل تھیں۔ بقیہ لوگ جو حجرت میں کامیاب ہوئے ان میں سے اکثریت نے اپنا پڑاو کراچی شہر میں ڈالا۔ یوں شہرِ کراچی کسی بھی قسم کی مشینری، فرنیچر اور وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی مہاجروں کا گھر بنا۔

ہم میں سے شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں کہ وہ کراچی جو آج پاکستان کا معاشی انجن ہے، ۱۹۴۷ میں تقریباََ ۵ لاکھ میاجرین کا گھر بننے کے بعد ’’ٹینٹوں کا شہر کہلائے جانے لگا‘‘ یعنی "City of Tents”۔ بابائے قوم سمیت ہر کوئی اس حقیقت سے پریشان تھا کہ لاکھوں لوگوں کا بسر ان ٹینٹوں میں کس طرح ہوگا؟

karachi

ٹینٹوں کا شہر کراچی، ۱۹۴۷

لیکن پھر پوری قوم نے دیکھا کہ کس طرح حجرت کرکے آنے والوں میں سے سَر آدم جی کے بلینک چیک نے، داود فیملی کی جانب سے مالی امداد نے اور حبیب فیملی سمیت دیگر نامور شخصیات نے پوری قوم کو اپنا احسان مند ٹھرایا۔ یہ انہی لوگوں کی خدمات کا نتیجہ ہے کہ دیکھتے دہی دیکھتے کس طرح کراچی ’ٹینٹو کے شہر‘ سے ہوتا ہوا پورے پاکستان کا معاشی حب بن گیا۔ اور آب کے اندیشے کی ذرا بھی گنجائش پیدا کئے بغیر بتاتے چلوں کہ ان میں سے کسی بھی تعلق زرداری صاحب کے خاندان میں سے نہ تھا۔ یہ انہی مہاجرین کی مالی قربانیوں کا ثمر ہے کہ کراچی وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود بھی پاکستان کے تجارتی مرکز تک کا راستہ طے کرنے میں کامیاب ہوا۔

جبکہ اس کے برعکس آصف زرداری اور انکے آباو اجداد جنہیں ریڈیو پاکستان کے ذریعے پاکستان کی آزادی کا پتا چلا وہ خوشی کہ مارے ہندوو برادری کے جانب سے خالی کردہ زمینوں پر قبضے کا پلان بنا رہے تھے۔

مہاجرین کی حجرت کے بعد ان کی جائیداد پر قبضہ کس نے کیا؟

آج جن جن لوگوں کہ بھی اس غلط فہمی کا اندیشہ ہے کہ مہاجروں کو کسی نے پالا، ان تمام حضرات کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کے مندرجہ بالا حصے میں بتا چکا ہوں کہ کس طرح مہاجروں نے بے لوث قربانیوں سے اپنی حجرت کو یقینی بنایا۔

ستم ظریفی کا عالم تو یہ کہ وہ مہاجرین جو اپنا سب کچھ بھارت میں خیر آباد کہہ آئے تھے، انکو اقوامِ متحدہ کے قانون کے مطابق اُس جائیداد کو کلیم کرنے کا اختیار حاصل تھا جو پاکستان سے ہندو فیملیز بھارت حجرت کرتے وقت چھوڑ گئیں۔

لیکن پھر کیا؟ مہربانی ہو آصف علی زرداری اور انکے آباواجداد کی جنکے لئے پاکستان کی آزادی یہ معنی رکھتی تھی کہ یہاں سے چھوڑجانے والے ہندووں کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا جائے۔ اور تو اور حجرت کرکے آنے والوں کو بھی انکی مستحق جائیدادوں سے محروم کیا گیا۔ اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ کر آنے والوں نے جب یہاں کلیم کرنے کا ارادہ کیا تو بعضوں کو منع کرکے محروم کردیا جبکی بعغوں سے ڈھائی سے تین ہزار روپے جتنی خطیر رقم (اسوقت کے لحاظ سے) رشوت کی مد میں وصول کی گئی۔ اور یہ دعویٰ مہرا نہیں بلکہ ڈان اخبار کے ایک انوسٹیگیٹو صحافی ’’اختر بلوچ‘‘ کی ایک تحقیقاتی اسٹوری کا ہے جو انہوں نے روزنامہ ڈان میں ’’کلیم کیانی‘‘ کے نام سے شائع کی۔

اب بھلا ان سب چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی پوچھے آصف زرداری صاحب سے کہ اصل میں کون کس کو پال رہا ہے؟ کہیں آپ کو وہ میاجرین ہی تو نہیں پال رہے جنہوں نے اپنی جائیدادیں بھی آپ کی حوس کی بھینٹ چڑھائیں اور کوٹہ سسٹم کے نام پر اپنے وسائل بھی کھسوٹنے دئیے؟ لیکن ان سب کے باوجود آج حالات یہ ہیں کہ کراچی شہر آج بھی اپنے دامن میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ سمویا ہوا ہے جبکہ کئی سو سال پرانی تہزیب و تاریخ رکھنے والا اندرونِ سندھ آپکی غلامی اور جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔

وہ شہر جو کسی زمانے میں ٹینٹوں کا شہر کہلائے جاتا تھا، حقیقت یہ کہ آج اسکا ریونیو صوبہ سندھ کو چلانے کے لئے ۹۵ فیصد ہے۔ اور یہ مہاجرین کا مال ہی ہے جسکی بدولت آپ بلاول ہاوس کراچی پر سکھ بھری نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں۔

زرداری صاحب خوابِ غفلت سے باہر آئییں اور حقیقت دیکھیں کراچی آج ساری محرومیوں اور وسائل کے بگیر بھی ترقی کر رہا ہے اور ملک کو چلانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جبکہ آپ اور آپ کے اباو اجداد کی حیثیت صرف اتنی سی ہے کہ الیکشن جیتنا بھی آبکے بس میں خیرپور، لاڑکانہ وغیرہ سے ہے۔

آئیندہ جب اسمبلی میں کھڑے ہوکر مہاجروں پر طعنے کسنے لگیں تو اس سے پہلے یہ یاد کرلیجئیے گا یہ مہاجروں کی ہی زمینہیں تھی جس پر آج آپ کے والد صاحب نے بمبینو سنیما اور اندرون سندھ میں وڈیرانہ نظام قائم کیا ہوا ہے اور وہ بھی مہاجروں کے ہی حقوق تھے جسکے عوض آپکے اجدادوں نے سرکاری نوکریاں خریدیں۔ جب کبھی مہاجوں کو پالنے کی باتیں زبان سے نکلیں تو اسکو لگام دینے کیلئے اندرونِ سندھ کا یہ پاکستان کہ کسی اور شہر کا موازنہ کراچی سے کرلیجئے گا۔

اور ویسے بھی انگریزوں کے جوتے صاف کرنے والوں کو پال پوس کی باتیں زیب نہیں دیتی!

 

مزید بڑھئیے:

Has Karachi Became a Peaceful City?