Posts in تاریخی آرکائیوز

غزوہ بدر – اسلام کا عظیم الشان معرکہ!

غزوہ بدر اسلام اور مسلمانوں کا وہ معرکہ ہے جس نے رہتی دنیا تک مسلمانوں کے عزم و ہمت روشن امر و بالا کردیا۔ سنہ ۲ ہجری میں پیش آنے والا یہ معرکہ مسلمانوں کے حق بجناب اور ایمان افروز ہونے کا ایسا واقعہ ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کو یہ باور کروایا کہ فتح یاب ہونے کیلئے لشکر کی کثرت یا تیر و تلوار کا بہتر ہونا لازمی نہیں بلکہ یہ بھی سکھلایا کہ جب مسلمان حق کی راہ پر نکلتا ہے تو کیوں نہ وہ تعداد میں کم ہی ہوں، اللہ ﷻ کی مدد و نصرت انکی شامل حال ہوتی ہے۔

غزوہ بدر کا پس منظر

غزوہ بدر یعنی جنگ بدر ہو یہ کوئی اور معرکہ، دورِ نبوتؐ کا ہر ایک واقعہ کسی نہ کسی تاریخی پسِ منظر کا حامل ہے جو جنگ کے شروعات کی وجہ بنا ہے۔

اعلانِ نبوتؐ کے بعد سرورِ کونینؐ کو کفار مکّہ اور قریش کی طرف سے سخت مصائب و آلام کا سامنا رہا۔ لیکن جب بات آنحضرتؐ کی ذات سے بڑھ کر ان مسلمانوں کی جانوں تک جاپہنچی جو نئے نئے اسلام میں داخل ہورہے تھے یا ہوچکے تھے تو مسلمانوں کو ناچاہتے ہوئے بھی حضورؐ کی بات پہ لبیک کہہ کر مدینہ حجرت کرنا پڑی۔ چونکہ قریش کے لوگ سرداروں کے ساتھ ملکر آنحضرت ص اور انکے ساتھیوں کے قتل کے تکلیف دہ منصوبہ بنارہے تھے تاکہ کسی بھی طرح سرور کونینؐ کی جانب سے پھیلنے والے اس اسلام کی روشنی کی کرن کو دبایا جاسکے، اسی اثنا میں آپؐ نے مکہ سے مدینہ (یثرب) حجرت کرکے مہاجرین اور انصار کی بدولت ایک انوکھی تاریخ رقم کردی۔

مکہ سے مدینہ حجرت کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کو کفار مکہ کی طرف سے سکون حاصل نہ ہوسکا۔ قریش جو کہ اپنا اثررسوخ مکّہ سے مدینہ تک رکھتے تھے، اسکی بدولت تمام قبائل کو اسلام مخالف بنالیا تھا۔ یوں مکہ میں جو مصیبت تھی وہ گو سخت تھی لیکن تنہا اور منفرد تھی، مدینے میں آکر وہ متعدد اور گوناگوں بن گئی۔

آنحضرتؐ جب مکّہ چلے آئے تو چند ہی روز کے بعد قریش نے عبداللہ بن ابی جو واقعہ حجرت سے قبل رئیس الانصار تھا اور انصار نے اس کی تاجپوشی کی شاہانہ رسم ادا کرنے کے لئے تیاری کرلی تھی، خط لکھا جسکے الفاظ یہ تھے:

"تم نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم لوگ ان کو قتل کرڈالو یا مدینہ سے نکال دو ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کریں گے اور تم کو گرفتار کرکے تمہاری عورتوں پر تصرف کریں گے۔”

جب آنحضرتؐ کو اس کے بارے میں پتا چلا آپ عبداللہ کے پاس تشریف لے گئے اس کو سمجھایا کہ ‘کیا تم خود اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے لڑوگے؟’ چونکہ اس وقت انصار کی اکثریت اس وقت مسلمان ہوچکی تھی چنانچہ عبداللہ نے اس نکتے کو سمجھا اور قریش کے حکم کو رد کردیا۔

اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قریش اب مدینے پر حملے کی تیاری کر رہے تھے کہ مدینہ پر حملا کرکے اسلام کا استیصال کریں۔ حتیٰ کہ آنحضرتؐ جب مدینہ آئے تو راتوں کو جاگا کرتے تھے۔

قریش کی جانب سے بیرونے حملہ کے امکان کو سامنے رکھتے ہوئے آپ نے دو تدبیریں اختیار کیں؛ اول یہ کہ قریش کی شامی تجارت جو مدینہ کے راستے سے ہوکر گزرتی تھی بند کردی جائے جو انکا مایہ غرور تھی تاکہ وہ صلح پر مجبور ہوجائیں، دوسرے یہ کہ مدینہ کے قرب و جوار کے جو قبائل ہیں ان سے امن و امان سے متعلق معاہدہ کرلیا جائے۔

چند روز کے بعد یعنی ۲ ھ رجب میں حضور نے ایک قافلہ عبداللہ بن جحش رض کے ساتھ مقام بطن نخلا کی طرف بھیجا۔ آپ نے حضرت عبد اللہ کو ایک خط دے کر فرمایا تھا کہ دو دن بعد اس کو کھولنا، حضرت عبداللہ رض نے خط کھولا تو لکھا تھا کہ ‘مقام نخلا میں قیام کرو اور قریش کے حالات کا پتا لگاؤ اور اطلاع دو۔’ اتفاق یہ کہ قریش کہ چند آدمی جو شام سے تجارت کا مال لئے آتے تھے سامنے سے نکلے۔ حضرت عبد اللہ رض نے ان پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں ایک شخص عمرو بن الحضرمی مارا گیا، دو گرفتار ہوئے اور مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ حضرت عبداللہ نے جب مدینے آکر یہ معاملہ بیان کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ "میں نے تم کو یہ اجازت نہیں دی تھی” اور غنیمت کا مال قبول کرنے سے بھی انکار کردیا۔

حو لوگ اس واقعہ میں قتل اور گرفتار ہوئے وہ قبیلہ قریش کے بہت معزز خاندان کے لوگ تھے۔ لہٰذا اس واقہ نے قریش کو مشتعل کردیا اور انتقام خون کی بنیاد قائم ہوگئی۔

جنگ بدر

بدر ایک گاؤں کا نام ہے جہاں سال کا سال میلہ لگتا تھا۔ یہ مقام اس نقطہ سے قریب ہے جہاں شام سے مدینہ جانے کا دشوار راستہ گذرتا ہے۔

جیسا کے اوپر لکھا ہے کہ قریش مدینہ پر حملے کی تیاری کر رہے تھے، اور حضرمی کے قتل نے قریش کی آتش غضب کو اور بھڑکا دیا تھا، اور وہ اب حملہ کرنے کو بے تاب تھے۔

آنحضرتؐ کو ان حالات کی حب اطلاع ہوئی تو آپ نے صحابہ کو جمع کیا اور اس واقعہ کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رض وغیرہ رضی اللہ عنہ نے جان نثار تقریریں کیں، لیکن آپ انصار کی طرف دیکھتے تھے، کیونکہ انصار نے بیعت کے وقت یہ اقرار کیا تھا وہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب دشمن مدینہ پر چڑھ آئیں۔ اتنے میں حضرت سعد رض بن عبادہ نے اٹھ کرکہا "اللہ کی قسم آپ فرمائیں تو ہم سمندر میں کود پڑیں” اور انکی اس تقریر سے حضور کا چہرا دمک اٹھا۔

غرض ١۲ رمضان کو آپ تقریباً تین سو جان نثاروں کے ساتھ شہر سے نکلے، ایک میل دور جاکر فوج کا جائزہ لیا، جو کم عمر تھے واپس کردیے گئے۔ انہی کم عمروں میں ایک عمیر رض بن ابی وقاص رض بھی تھے جب ان سے واپسی کو کہا گیا تو رو پڑے بالآخر آنحضرت نے اجازت دے دی۔ اب فوج کی کُل تعداد ٣١٣ تھی جس میں ساٹھ مہاجر اور باقی انصار تھے۔
آپ بدر کی طرف بڑھے جہاں سے اہلِ مکہ کے آنے کی خبر تھی۔ دو خبر رساں اور عدی آگے روانہ کردئیے تاکہ قریش کی نقل و حرکت کی خبر لائیں۔ طویل راستہ طے کرتے کرتے بلآخر ١۷ رمضان کو بدر کے قریب پہنچے۔ خبر رسانوں نے خبر دی کہ. قریش وادی کے دوسرے تک آگئے ہیں۔ آپ یہی رک گئے اور فوجیں اتر پڑیں۔

مکہ معظمہ سے قریش بڑے ساز و سامان کے ساتھ نکلے تھے، ہزار آدمی کی جمیعت تھی، سو سواروں کا رسالہ تھا، رؤسائے قریش سب شریک تھے، مگر ابو لہب مجبوری کی وجہ سے نہ آسکا تھا اس لئے اپنی طرف سے قائم مقام بھیج دیا تھا۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معزز رئیس تھا فوج کا سپہ سالار تھا۔

بخلاف اسکے مسلمانوں کی طرف چشمہ یہ کنواں تک نہ تھا۔ زمین ایسی ریتیلی تھی کہ اونٹوں کے پاؤں زمین میں دھنس جاتے‍ تھے۔ حضرت حباب نے آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ جو مقام انتخاب کیا گیا ہے وہ وحہ کی رو سے ہے یا فوجہ تدبیر ہے؟ ارشاد ہوا کہ وحہ نہیں ہے۔ جس بر حباب نے فرمایا تو بہتر ہوگا کہ آگے بڑھ کر چشمہ پر قبضہ کرلیا جائے اور آس پاس کے کنویں بے کار کردئے جائیں۔ آپ نے یہ رائے پسند فرمائی اور اسی پر عمل کیا گیا۔ حسن اتفاق سے مینہ برس گیا جس سے گرد جم گئی اور جابجا پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنالئے گئے تاکہ وضو اور غسل کیلئے کام آئیں۔

رات کا وقت ہوا تمام صحابہ نے کمر کھول کر رات بھر آرام کیا لیکن صرف ایک ذات تھی (ذاتِ نبوی) جو صبح تک بیدار اور مصروفِ دعا رہی، صبح ہوئی تو لوگوں کو نماز کیلئے آواز دی اور بعد نماز جہاد پر وعظ فرمایا۔ ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ عتبہ جو قریش کے قافلے کا سپہ سالار تھا اُسی کے فرزند ابوحذیفہ عض اسلام لاچکے تھے اور اس معرکہ میں آنحضرت کے لشکر میں شامل تھے۔

چونکہ آپؐ اپنے ہاتھ کو خون سے آلودہ کرنا بسند نہیں فرماتے تھے لہٰذاصحابہ نے میدان کے کنارے ایک چھپر کا سائبان تیار کیا کہ آپ اس میں تشروف رکھیں۔ سعد رض بن معاذ اس دروازے پر تیغ بکف کھڑے ہوئے تاکہ کوئی اس طرف نہ آسکے۔ مہاجرین کا علم مصعب رض بن عمیر کے ہاتھ میں تھا اسی طرح انصار کے قبیلہ خزرج کے علمبردار حضرت حباب رض اور اوس کے حضرت سعد رض بن معاذ مقرر ہوئے۔

صبح ہوتے ہوتے آپؐ نے صف آرائی شروع کی اور دست مبارک میں ایک تیر تھا اس کے اشارہ سے صفیں قائم کرتے تھے۔ لڑائی میں شور و غل عام بات ہے لیکن منع کردیا گیا تھا کہ کسی کی آواز تک نہ نکلنے پائے۔

اب حق و باطل، نور و ظلمت، کفر و اسلام دو صفوں کی صورت میں آمنے سامنے تھے۔ عجیب منظر تھا کہ اتنی بڑی اور وسیع دنیا میں توحید کی قسمت چند جانوں پر منحصر تھی۔

اس معرکہ کی اہمیت یوں بھی تھی کے یہ معرکہ ایثار اور جان بازی کا سب سے حیرت انگیز منظر تھا۔ دونوں فوجیں جب سامنے آئیں تو لوگوں کو نظر آیا کہ خود انکے جگر کے ٹکرے تلوار کے سامنے ہیں۔ حضرت ابوبکر رض کے بیٹے (جو اب تک کافر تھے) میدان جنگ میں بڑھے تو حضرت ابوبکر رض بھی تلوار کھینچ کر نکلے۔ عتبہ قریش کا سپہ سالار میدان میں آیا تو حضرت حذیفہ رض جو عتبہ کے فرزند تھے اس کے مقابلے کو نکلے۔ حضرت عمر رض کی تلوار ماموں کے خون سے رنگین تھی۔

لڑائی کا آغز یوں ہوا کہ سب سے پہلے عامر حضرمی جسکو بھائی کے خون کا دعوی تھا (جو عبداللہ بن جحش کے حملے میں مارا گیا تھا) آگے بڑھا اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت عمر کا غلام مہجع اس کے مقابلے کو نکلا اور مارا گیا۔

پھر عتبہ جو لشکر کا سردار تھا اپنے بھائی اور بیٹے کو لے کر نکلا جسکے جواب میں جضرت معاذ رض، عوف رض اور عبداللہ رض بن رواحہ مقابلے کو نکلے۔ عتبہ نے نام و نسب پوچھا تو یہ جان کر کہ یہ تینوں انصار میں سے ہیں تو فوراً کہا ‘ہمیں تم سے غرض نہیں، پھر آنحضرت کے طرف مخاطب ہوکر پکارا کہ محمد! یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں۔ آنحضرت کے حکم پر انصار ہٹ آئے اور حضرت حمزہ رض، علی رض اور عبیدہ رض میدان میں آئے۔ عتبہ نے دوبارہ اسی طرح نام و نسب پوچھا اور پھر کہا کہ ہاں اب جوڑ ہے!

عتبہ حضرت حمزہ اور ولید حضرت علی سے مقابل ہوا اور دونوں مرے گئے۔ لیکن عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت عبیدہ کو زخمی کیا۔ حضرت علی رض نے آگے بڑھ کر شیبہ کو قتل کردیا اور عبیدہ رض کو کندھے پہ اٹھا کر رسول اللہ کی خدمت میں لائے۔ حضرت عبیدہ نے آپ سے پوچھا کہ کیا میں شہادت کی دولت سے محروم رہا؟ آپ نے فرمایا "نہیں تم نے شہادت پائی”۔

سعید بن العاص کا بیٹا عبیدہ کفار کی جانب سے میدان میں نکلا جو سر سے پاؤں تک لوہے کی صف میں ڈوبا ہوا تھا اور پکارا میں میں ابوکرش ہوں، اسکے جواب میں حضرت زبیر رض اس کے مقابلے کو نکلے، چونکہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں، تاک کر آنکھ میں ایسی برچھی ماری کہ زمین پر گرا اور مرگیا۔ برچھی اس طرح پیوست ہوگئی کہ حضرت زبیر نے اس کی لاش پر پاؤں اڑا کر کھینچا تو بڑی مشکل سے نکلی۔

اب عام حملہ شروع ہوگیا تھا۔ مشرکین اپنے بل بوتے پر لڑ رہے تھے جبکہ ادھر سرور عالم ص سر بسجدہ صرف الل کی قوت کا سہارا ڈھونڈ رہے تھے۔

ابو جہل کی شرارت اور اسلام دشمنی کا عام چرچہ تھا۔ اسی بنا پر انصار میں سے معاذ اور معوذ رض دونوں بھائیوں نے عہد کیا تھا کہ یہ شقی جہاں نظر آئیگا اسکو قتل کردینگے یا خود مٹ جائیں گے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں صف میں تھا کہ دونوں بھائیوں نے مجھ سے کان میں پوچھا کہ ابوجہل کہاں ہیں؟ میرا اشارے سے بتانا تھا کہ ‘وہ رہا’ دونوں بھائی باز کی طرح جھپٹے اور ابوجہل خاک پر تھا۔ یہ دونوں عفرا کے بیٹے تھے۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے عقب سے آکر معاذ رض کے بائیں بازہ پر تلوار ماری جس سے بازو لٹک گیا۔ ہاتھ کے لٹکنے سے زحمت ہوتی تھی تو ہاتھ کو پاؤں کے نیچے دبا کر کھینچا کہ تسمہ بھی الگ ہوگیا۔

آپؐ کا شدید دشمن امیہ بن خلف بھی جنگ بدر میں شریک تھا۔ چونکہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رض نے کسی زمانے میں معاہدہ کیا تھا کہ وہ مدینہ میں آئے گا تو یہ اسکی جان کے ضامن ہونگے۔ سخت دشمنی کے باوجود بھی عہد کی پابندی اسلام کا شعار ٹہری۔ عبدالرحمن بن عوف نے چاہا کہ وہ بچ کے نکل جائے اس کو ایک پہاڑ پر لے گئے جہان پر حضرت بلال رض نے دیکھ لیا اور انصار کو خبر دی، جسکے بعد لوگ اس پر ٹوٹ پرے اور وہ مارا گیا۔

اور بلآخر وہ ہو جس نے آنے مسلمانوں کو امر کرکے رکھ دیا۔ ابو جہل اور عتبہ وغیرہ کے قتل کے بعد قریش نے سپر ڈال دی اور مسلمانوں نے انکو گرفتار کرنا شروع کردیا۔

کفار سمیت دشمنان اسلام سب حیرت زدہ تھے کہ کس طرح تین سو پیدل آدمیوں نے ایک ہزار جن میں سو سواروں کا رسالہ تھا کو شکست سے دوچار کیا۔ ساتھ ہی ساتھ تائید آسمانی نے ایسے جلوے دکھائی اور مسلمانوں کی مدد و نصرت کی جسکا ذکر قرآن میں بھی بارہا نظر آتا ہے۔ مثلاً بارش کے برسنے سے موقع جنگ کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ قریش جہاں صف آرا تھے وہاں کیچر اور دلدل کی وجہ سے چلنا مشکل ہوگیا تھا۔ قریش مرعوب ہونے کے باوجود یعنی تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی اسلامی فوج کا تخمینہ غلط کر رہے تھے یعنی اہنی تعداد سے دوگنا، جسکا واضع ذکر قرآن مجید کی سورۃ آل عمران میں بھی موجود ہے۔

اگر تو دونوں جماعتوں کا موازنہ کیا جائے تو نظر آئیگا کہ مسلمانوں کے پاس کچھ نہ تھا سوائے اللہ کی مدد کے، قریش کی تعداد ایک ہزار تھی، مسلمان صرف ٣۰۰ تھے، قریش میں سو سوار تھے، مسلمانوں کی فوج میں صرف دو گھوڑے تھے۔ مسلمانوں میں بہت کم سپاہی تمام ہتھیاروں سے لیس تھے جبکہ اُدھر قریش کا ہر سپاہی لوہے میں غرق تھا۔ لیکن مسمانوں کے ساتھ اس رب ک وعدہ تھا جو ساتھوں زمین اور آسمان کا بنانے والا ہے؟ لہٰذا چند سو لوگوں کا ٹولا ہزار لوگوں کے مقابل فتح یاب ٹہرا۔

جنگ کے خاتمے پر معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں صرف ١۴ شخصوں نے شہادت پائی جن میں ٦ مہاجر اور باقی انصار تھے۔ لیکن دوسری طرف قریش کی اصلی طاقت ٹوٹ گئی، نامور رؤسائے قریش ایک ایک کرکے مارے گئے جسکے بعد کل ملا کر قریش کے مارے جانے والوں کی تعداد ۷۰ ہوگئی تھی۔

یہ تھی مسلمانوں کی اصل طاقت جو ظاہری اسباب سے آزاد تھی، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جنگیں جیتنے کیلئے پختہ ایمان کا ہونا سب سے ضروری ہوتا ہے۔

یقیناْ خدا نے تمہاری در میں مدد کی جب تم کمزور تھے۔ تو خدا سے ڈرو تاکہ تم شکر گزار بن جاو۔ (سورۃ آل عمران آیت ۱۲۳)

وہ تین سو تیرہ تھے تو لرزتا تھا زمانہ
آج ہم کڑوڑوں بھی ہیں تو کر رہے ہیں غلامی

بلدیاتی حکومت کی طاقت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟

بلدیاتی حکومت کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ لوکل سلف گورنمنٹ جسکو بلدیاتی حکومت بھی کہتے ہیں، اس سے دنیا کی تاریخ میں کیسے پیجیدہ مسائل کئے جا چکے ہیں؟

کراچی والوں کے نزدیک بلدیاتی گورمنٹ کی سب سے اعلی و عمدہ مثال پرویز مشرف کے زیرِ حکومت ایم کیو ایم کی جانب سے مصطفی کمال دور کے ہیں۔ ۲۰۰۲ سے ۲۰۰۷/۸ تک رہنے والی اس بلدیاتی حکومت کے دور میں بلاشبہ کراچی نے ان گنت ترقیں کی منزلیں طے کیں، اور نیچلی یعنی عوامی سطح تک مسائل حل کرنے کے لئے ٹاؤن ناظم اور یونین عہدیدار پر مبنی نظام کو متعارف کرایا گیا۔

مگر ہائے قسمت اس شہر کی کہ اُس کے بعد سے اس شہر کو نا تو ایسا بلدیاتی نظام ملا اور نہ ہی ایسی ترقی اور انفراسٹرکچر۔ شکریہ بجانب سائیں سرکار!

مگر یہ تو اکیسویں صدی ہے، اور دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ بلدیاتی نظام کوئی اچھنبے کی بات نہیں، دنیا بھر میں آج بھی دیحات اور شہروں کے ترقی کے لئے یہی نظام موزوں ہے، اور یہ نظام کوئی نیا تجویز کردہ نہیں بلکہ صدیوں سے رائج ہے۔ بہبود کی ترقی سے لے کر پیجیدہ بحران کے حل تک، دنیا کی تاریخ میں اس نظام کے حوالے سے حیران کن مثالیں موجود ہیں۔

کسی بھی شہر و ملک کیلئے بلدیاتی نظام کیوں ضروری ہوتا ہے، اور اس کی طاقت کے استعمال سے کیسے مسئلے حل کئے جاتے ہیں، اس کی مثال آئیندہ والے حصے میں ملاحظہ کریں۔

روس کا بلدیاتی نظام اور ذیمیسٹوو کا کردار!

روسی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے جس کی کڑی ۳۰۰/۴۰۰ عیسویں سے جا ملتی ہے۔

انقلابِ روس سے پہلے تک روس کی معیشت کا سارا دارومدار زراعت کے شعبے سے منسلک تھا۔ یہ بات ہے انیسویں صدی کی، جب روس کی معیشت کا سارا دارومدار زراعت پر ہونے کے باووجود، وہاں کے کسانوں کی کیفیت غلاموں کی سی تھی۔ سرکار یا زمیندار کو لگان دینا ہو یا فوج کیلئے سپاہی مہییا کرنا، یہ لوگ گویا پس انہی دو باتوں کے لئے پیدا کئے گئے تھے۔ تعلیم کی یہ صورتِحال یہ تھی کی اٹھارویں صدی کے آخر میں ۳ کڑوڑ کی آپادی کیلئے صرف ایک درجن مدرسے تھے جن میں مشکل سے ۳۰۰ طلبہ تعلیم پاتے تھے۔

یورپ سے روز افزوں ارتباط، نئی اصلاحات کی جلا اور صنعت و حرفت اور تجارت کے نشونما نے روس کی شہری آبادی کو فارغ البال اور ذی اثر بنا دیا تھا۔ انیسویں دوسری نصف صدی میں ایک جانب سے انقلابِ یورپ  کی روح انگیز آب و ہوا نے ’’نکولس اول‘‘ کے دماغ کو خائف و پریشان کر رکھا تھا تو دوسری جانب سے اندرونی مسائل کی پیجیدگیوں نے اس مزاج کو درہم برہم کردیا تھا۔

ملک میں باقاعدہ آئینی جدوجہد کے راستے بند تھے جس کی وجہ سے عام عوام میں اس بات کا احساس پیدا ہوگیا تھا کہ رعیت میں سے ہر فرد کے بعض حقوق ایسے ہیں کہ جن کا پاس و لحاظ حکومت کیلئے لازمی ہے۔

اس کے بر عکس روسی حکمران ’’نکولس ‘‘ کی پالیسی قدامت پسندی اور مطلق العنانی کی تھی۔ یہ ان معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی پسند نہیں کرتا تھا اور اصلاح و تبدیلی کے نام سے اس کی پیشانی پر بل پرنے لگتے تھے۔

مگر کیا کیا جائے  کہ جنگِ کریمیا (1853-1856) کی آفتوں نے اس صورتِحال کا بری طرح راز فاش کردیا تھا۔ جنگ کی وجہ سے حکومت کا شیرازہ بکھرنے کو تھا، اور حکومت کا خزانہ خالی ہوچکتا تھا۔ اصلاح و تبدیلی کی ضرورت ہر صیغے اور شعبے میں معلوم ہوتی تھی۔ سڑکیں اور ریلوے کھولنے کے بنانے کیلئے اور نئے کاروبار اور فیکٹریاں کھولنے کیلئے، زراعت کی ترقی دینے کیلئے غرض یہ کہ ہر اس شعبے کو ترقی دینے کے لئے جس سے ملک کی دولت میں اضافہ ہو تبدیلی اور بہتر نظام کی ضرورت تھی۔

جب ملک کو چاروں طرف سے مصیبتوں نے گھیر لیا اور عوام نے بغاوت کا الم بلند کیا تو ’’الیگزینڈر دوؤم‘‘ کو اپنی روشن خیالی اور دور اندیشی کا استعمال کرنا پڑا۔ کسانوں کے روز بہ روز بڑھتے احتجاج کو دیکھ کر اور عوام کو اپنی زندگی امور میں پیجیدگیوں کے پیشِ نظر سڑکوں پہ نکلتا دیکھ کر حکومت کو لوکل سلف گورمنٹ یعنی بلدیاتی حکومت کی طرف توجہ کرنی پڑی۔

1864 میں حکومت نے مقامی معاملات میں اپنے اختیارات محدود کرکے نمائیندگان رعیت کو ایک حد تک خود مختاری دی۔ دیہاتی رقبوں میں تعلیم حفظان صحت، زراعت اور اس قسم کے شعبوں کا انتطام ہر ضلع میں رعیت کے یعنی مقامی لوگوں کے منتخب کئے ہوئے  مقامی بورڈ اور کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا (جسے کراچی کی بلدیات میں یونین کانسلرز اور چئیرمین کیا جاتا ہے)۔

یہ بورڈ اور کمیٹیاں ذی میسٹوز (Zemstvo) کے نام سے موسوم کی گئی تھیں۔ مقامی ضروریات کے لئے محصول لگانے کا اختیار بھی ان کو دیا گیا تھا۔ ہر ضلع کے لئے ایک ذی میسٹوز قائم کیا گیا تھا اور تمام ضلعوں کے ذی میسٹوز کی نگرانی اور ہدایت کے لئے ہر صوبے میں ایک ذی میسٹوز قائم کیا گیا تھا۔ ان اصلاحات کا نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کے مختلف طبقوں میں بجائے علیحدگی اور غیریت کے ملکی معاملات میں ارتباظ اور یکجہتی پیدا ہونے لگی۔ گویا لوگل سلف گورمنٹ نے وہاں مؤثر کام دکھایا جہاں پر جمہوری دستور حکومت کے رائج ہونے کے انداز بھی نہیں پائے جاتے تھے۔

لوکل سلف گورمنٹ (بلدیاتی حکومت) کے رائج ہونے کے چند عرصے بعد ہی ملک میں نمایاں بہتری نظر آنے لگی۔ ملک میں بینک اور مشترکہ سرمایہ کاری کی بہت سی کمپنیاں کھل گئیں، ریلوے لائینیں بننے لگیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں اضافہ ہونے لگا جس سے تجارت کو اور زیادہ فروغ ہوا اور ملک کی مالی حالت بہتر ہونے لگی۔

اس کے علاوہ مقامی حکومت میں خود مختاری حاصل ہونے کا اثر کسانوں پر بھی اچھا پڑا۔ دیہات میں نئے طریقِ زراعت رائج کرنے اور حفظانِ صحت کا انتظام کرنے کے علاوہ ان ذی میسٹوز (یونین کونسلرز) نے تعلیم کی اشاعت میں کوشش بلیغ کی۔ 1874ع میں ابتدائی مدارس کی تعداد ایک درجن سے بڑھ کر ۲۳ ہزار سے زائد تک جا پہنچی تھی جن میں تقریباََ ۱۰ لاکھ طلبہ تعلیم پاتے تھے۔

یہ تھا بلدیاتی نظام یعنی لوکل سلف گورمنت کا اثر جس نے جنگ کی تباہ حال روس کی عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرکے حیران کن طور پر دوبارہ روز مرہ کی زندگی پر لا کھڑا کیا۔ انیسویں صدی کے جنگ سے تباہ حال روسی عوام نے وہ بلدیاتی نظام تجربہ کیا جو آج اکیسویں صدی میں پاکستان کے سب سے بڑے اور فنانشل مگر لاوارث شہر بھی نہ کرسکا ہے۔ ممکن ہے روسی عوام سائیں سرکار کے پہنچ سے باہر جو تھی۔

دنیا بھر کے جو بھی ممالک ہوں گوہا وہ ترقی یافتہ ہوں یہ ترقی کی جانب گامزن، اس کا کوئی میٹروپولیٹن شہر مؤثر بلدیاتی نظام کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ مگر بدقسمتی اس شیر کراچی کی جو تقریباََ ایک ٹریلن روپے ٹیکس کی مد میں دینے کے باوجود، پورے ملک سے روزگار کے سلسلے میں آئے ہوئے لوگوں کو اپنے اندر بسانے کے باوجود بلدیاتی نظام اور بنیادی سہولیت سے محروم ہے۔ چاہے بارش سے ہونے والی ہلاکتیں ہوں یہ اسٹریٹ کریمینلز کے ہاتھوں قتل ہونے والے معصوم شہری، یہ سب ذرہ برابر بھی اہمیت کے ھامل نہیں۔ اور رہا حکومت کا حال تو بھائی اگر مسئلہ کے حل کی بات کروگے تو سندھ دھرتی ماں سے سندھو دیش بن جائیگا، رہا وفاقی حکومت کا حال تو بھائی ہمارا پرائم منسٹر کراچی کے بارے تقریر بہت اچھی کرلیتا ہے، اور صدر پاکستان جسکا تعلق کراچی سے ہے اور جو جرنیل الیکشن کی کمپین میں پی ٹی آئی کو کراچی کے مسئلے کا حل بتا رہا تھا وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے۔

اب کراچی کی عوام کسی روسی حکمران کے آنے کا ہی انتظار کریں!