نوٹ:

اس بلاگ کی باقاعدہ شروعات کرنے سے پہلے، میں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کے میں لسانیت کی بنیاد پر تفریق پر یقین نہیں رکھتا اور اس کو کسی بھی ملک کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتا ہوں۔ مگر اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کسی بھی لسانی طبقے پر ہونے والے ظلم، تعصب اور نا انصافی پر آنکھیں بند کرلی جائیں۔

ساتھ ہی ساتھ میری اس تحریر کا نشانہ ہرگز ہمارے سندھی بھائی نہیں بلکہ پی پی پی اور آصف زرداری ہیں۔ چونکہ عام طور پر تاثر ابھرا ہوا ہے کہ جب کوئی مہاجروں کی حقوق کی بات کرے تو اسکا مطلب وہ سندھی بھائی سے دشمنی رکھتا ہے۔ جبکہ ایسا بلکل بھی نہیں۔ سندھی ہمارے اتنے ہی بھائی جتنا کہ کوئی اور۔ کراچی اور پاکستان میں رہنے کا حق اُنکا بھی اتنا ہی ہے جِتنا کسی اور کا۔ لہٰذا تحریر کو شروع کرنے سے پہلے اِن دونوں ابہاموں کو دور کرتا چلوں۔

گزشتہ دنوں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ’انڈیا کے کشمیر سے متعلق آئین میں ترمیم‘ کے حوالے سے پارلیمان کا ایک جوائنٹ سیشن بلایا گیا۔ جس میں کشمیر کے حوالے سے کیا ایکشن لیا جائے کے علاوہ ہر چیز پر بات ہوئی۔ اسی جوائنٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سابق صدر اور جیل کاٹنے کے باوجود پروڈکشن آرڈرز کے تحت اسمبلی میں موجود ’’آصف علی زرداری‘‘ نے مہاجروں پر طنز کستے ہوئے کہا کہ ’پاکستان آپ نے نہیں، ہم نے بنایا ہے۔ آپ لوگ وہاں سے بھاگ کر آئے تھے، اور ہم نے آپ لوگوں کو پالا۔

یہ کوئی پہلے مرتبہ نہیں کہ کسی نے مہاجروں کے خلاف اس طرح کی بات کری ہو، بلکہ  اس سے پہلے زرداری صاحب کے علاوہ پی پی پی کے دیگر لیڈران  بھی اس نوعیت کے بیان سے چکے ہیں جس میں عموماََ کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے جس میں ذولفقار مرزا، مراد علی شاہ، سہیل انور سیال  شامل ہیں۔

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ۷۰ سال ہوگئے، لیکن خدا جانے آج بھی مہاجروں کی شناخت اتنی تذبذب کا شکار کیوں ہے؟ نا جانے کیوں آج بھی ملک میں ایک طبقہ مہاجروں کی قربانیوں کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں۔ اور سونے پہ سہاگا تو یہ کہ مہاجروں کی ان سب غیر معمولی قربانیوں کے باوجود بھی آج بھی اِن کے ساتھ زندگے کے دیگر شعبوں میں دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک ہوتا ہے۔

سرکاری نوکریوں سے لیکر سیاست تک، ریاست کا برتاو مہاجروں کے ساتھ الگ اور باقی شہریوں کے ساتھ الگ پایا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی زندہ مثال محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ پیش آنے والا ریاست کا ناروا سلوک ہے جسکی نشاندہی وہ خود ہی متعدد ٹی وی پروگراموں میں کرچکے ہیں۔ ملاحظہ کیجئیے:

یہ ویڈیو خاص کر ان لوگوں کیلئے بھی ہے جو یہ کہتے ہیں مہاجر مہاجر نہیں بلکہ پاکستانی ہیں، اور مہاجر لفظ کا استعمال تعصب کو ہوا دیتا ہے۔ ان سے اس ویڈیو کے ذریعے میرا چھوٹا سا سوال۔۔۔ کیا عبدالقدیر خان بحیثیتِ پاکستانی اس سلوک کے حقدار تھے؟

اسی طرح کراچی آپریشن کی آڑ میں جس طرح انسانی حقوق کی پامالی ایک مخصوص طبقے کے ساتھ دیکھنے میں آئے کسی اور کے ساتھ دیکھنے میں نہیں آئی۔ اور وہ بھی عین اُس وقت جب اس شہر میں عزیر بلوچ جیسے خطرناک دہشتگرد بھی موجود ہوں۔

ایم کیو ایم کا مطالبہ تھا کے آپریشن کی آر میں کہیں بے گناہ نوجوانوں کو بھی جبری تشدد اور ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن اس وقت ہر عام شہری کو یہی لگ رہا تھا کے متحدہ کا یہ دعویٰ کسی ڈھونگ سے کم نہیں اور دہشتگردوں کو سافٹ کارنر دینے کی ایک سازش ہے۔

پھر پورے پاکستان نے دیکھا کے کس طرح اچانک ایم کیو ایم کے لیڈر فاروق ستار کے کارڈینیٹرر ’’آفتاب احمد‘‘ کو رینجرز گرفتار کرکے لے گئے جس کے بعد انہیں ماورائے عدالت وتل کردیا گیا، جسکے بیہمانہ تشدد کی تصویریں سوشل پیڈیا پر گردش بھی کرتی رہیں جس کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقاب کا بھی حکم دیا اور معاملہ رفہ دفعہ ہوگیا۔ بھلا آرمی چیف کی یقین دہانے دِلانے سے کیا معاملہ حل ہوجاتا ہے؟ نقیب اللہ محسود کے کیس کو ہی دیکھ لیں!

 

aftab ahmed

مندرجہ بالا تصویر فاروق ستار کے کارڈینیٹر آفتاب احمد کی مسخ شدہ لاش کی ہے۔

اس کے بعد آجاتے ایک ایسے واقعے پر جو اگر کسی اور ملک مین رونما ہوتا تو قیامت برپا کردیتا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے جامعہ کراچی کے ایک بزرگ پروفیسر جنکا نام پروفیسر حسن ظفر عارف ہے انکو صرف اسلئے بیہمانہ طریقے سے حراست میں لیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنا تعلق متحدہ کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے؟ رینجرز کی حراست اور اُسکے بعد پُراسرار موت۔۔۔ اور ہمیشہ کی طرح دیسی لبرلز اور فلسفیوں کو خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔

prof hasan zafar arif

اسکےعلاوہ متحدہ کے لیڈرز ہوں یا فیصل رضا عابدی یا کراچی سے تعلق رکھنے والے کوئی اور۔۔۔ تاریخ گواہ ہے ک جو مثالیں ریاست کی جانب سے کراچی میں نظر آئیں ایسی کسی اور شہر میں نہ آسکی۔

اب آجاتے ہیں اس دعوے کی حقیقت پر جو آصف علی زرداری صاحب نے اسمبلی کے فلور پر کیا۔ کہ کیا مہاجر بھاگ کر آئے تھے؟ کیا پاکستان انہوں نے نہیں بنایا؟ آئیں اس دعوے کی حقیقت کا تاریخ کے آئینے میں جائزہ لیں۔

پاکستان مہاجروں نے نہیں بنایا بلکہ وہ تو بھاگ کر آئے؟

 

پاکستان مہاجروں نے نہیں بلکہ کسی اور نے بنایا اور بلکہ مہاگر بھاگ کر آئے تھے۔ ایسا ’’بمبینو سنیما کی کسی فلم میں تو ہوسکتاہے جبکہ حقیقت میں نہیں‘‘۔

 

پاکستان مہاجروں نے نہیں بلکہ کسی اور نے بنایا اور بلکہ مہاگر بھاگ کر آئے تھے۔ ایسا بمبینو سنیما کی کسی فلم میں تو ہوسکتاہے جبکہ حقیقت میں نہیں۔ برِ صغیر پاک و ہند کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا ان مہاجرین کے بغیر ممکن تھا جنہوں نے اپنی سیاسی صلاحیتوں اور جان و مال کا نذرانہ پیش کرکے پاکستان کو دنیا کو نقشے پہ نمودار کیا۔

علی گڑھ مومنٹ ہو یا تحریکِ پاکستان ہا پھر آل انڈیا مسلم لیگ۔۔۔ سر سید احمد خان ہو یا محمد علی جناح ہو یا پھر لیاقت علی خان۔۔۔ جوہر برادران یا سر آغا خان۔۔۔ یا پھر کاروباری شخصیات کی صورت میں۔۔۔ تاریخ نے دیکھا کہ مہاجروں نے جو اس علاقے میں ہر گز نہ رہتے تھے جسکو آج کے دور میں پاکستان کہتے ہیں انہوں نے کس قسم کی قربانیاں پاکستان بنانے کیلئے پیش کیں۔ اس کے مقابلے میں زرداری صاحب ہی بتادیں کے اُنکے لوگوں نے کونسا ملک آزاد کروایا؟ بنگلہ دیش؟

آئیے چلتے ہیں بمبینو سنیما کی فلوپ فلم کے دوسرے پارٹ پر۔۔۔ جس میں زرداری صاحب نے یہ کہا کے بھاگ کر آنے والے مہاجرین کو ہم نے بناہ دی۔۔۔ آئیے اس دعوے کی حقیقت کو بھی ٹٹول لیتے ہیں۔

حجرت کرکے آنے والے مہاجرین کو کس نے پالا اور پناہ دی؟

بھارت سے حجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ تھی۔ جس میں سے تقریباََ آدھے لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا جس میں بچے بھوڑے اور عورتیں شامل تھیں۔ بقیہ لوگ جو حجرت میں کامیاب ہوئے ان میں سے اکثریت نے اپنا پڑاو کراچی شہر میں ڈالا۔ یوں شہرِ کراچی کسی بھی قسم کی مشینری، فرنیچر اور وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی مہاجروں کا گھر بنا۔

ہم میں سے شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں کہ وہ کراچی جو آج پاکستان کا معاشی انجن ہے، ۱۹۴۷ میں تقریباََ ۵ لاکھ میاجرین کا گھر بننے کے بعد ’’ٹینٹوں کا شہر کہلائے جانے لگا‘‘ یعنی "City of Tents”۔ بابائے قوم سمیت ہر کوئی اس حقیقت سے پریشان تھا کہ لاکھوں لوگوں کا بسر ان ٹینٹوں میں کس طرح ہوگا؟

karachi

ٹینٹوں کا شہر کراچی، ۱۹۴۷

لیکن پھر پوری قوم نے دیکھا کہ کس طرح حجرت کرکے آنے والوں میں سے سَر آدم جی کے بلینک چیک نے، داود فیملی کی جانب سے مالی امداد نے اور حبیب فیملی سمیت دیگر نامور شخصیات نے پوری قوم کو اپنا احسان مند ٹھرایا۔ یہ انہی لوگوں کی خدمات کا نتیجہ ہے کہ دیکھتے دہی دیکھتے کس طرح کراچی ’ٹینٹو کے شہر‘ سے ہوتا ہوا پورے پاکستان کا معاشی حب بن گیا۔ اور آب کے اندیشے کی ذرا بھی گنجائش پیدا کئے بغیر بتاتے چلوں کہ ان میں سے کسی بھی تعلق زرداری صاحب کے خاندان میں سے نہ تھا۔ یہ انہی مہاجرین کی مالی قربانیوں کا ثمر ہے کہ کراچی وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود بھی پاکستان کے تجارتی مرکز تک کا راستہ طے کرنے میں کامیاب ہوا۔

جبکہ اس کے برعکس آصف زرداری اور انکے آباو اجداد جنہیں ریڈیو پاکستان کے ذریعے پاکستان کی آزادی کا پتا چلا وہ خوشی کہ مارے ہندوو برادری کے جانب سے خالی کردہ زمینوں پر قبضے کا پلان بنا رہے تھے۔

مہاجرین کی حجرت کے بعد ان کی جائیداد پر قبضہ کس نے کیا؟

آج جن جن لوگوں کہ بھی اس غلط فہمی کا اندیشہ ہے کہ مہاجروں کو کسی نے پالا، ان تمام حضرات کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کے مندرجہ بالا حصے میں بتا چکا ہوں کہ کس طرح مہاجروں نے بے لوث قربانیوں سے اپنی حجرت کو یقینی بنایا۔

ستم ظریفی کا عالم تو یہ کہ وہ مہاجرین جو اپنا سب کچھ بھارت میں خیر آباد کہہ آئے تھے، انکو اقوامِ متحدہ کے قانون کے مطابق اُس جائیداد کو کلیم کرنے کا اختیار حاصل تھا جو پاکستان سے ہندو فیملیز بھارت حجرت کرتے وقت چھوڑ گئیں۔

لیکن پھر کیا؟ مہربانی ہو آصف علی زرداری اور انکے آباواجداد کی جنکے لئے پاکستان کی آزادی یہ معنی رکھتی تھی کہ یہاں سے چھوڑجانے والے ہندووں کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا جائے۔ اور تو اور حجرت کرکے آنے والوں کو بھی انکی مستحق جائیدادوں سے محروم کیا گیا۔ اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ کر آنے والوں نے جب یہاں کلیم کرنے کا ارادہ کیا تو بعضوں کو منع کرکے محروم کردیا جبکی بعغوں سے ڈھائی سے تین ہزار روپے جتنی خطیر رقم (اسوقت کے لحاظ سے) رشوت کی مد میں وصول کی گئی۔ اور یہ دعویٰ مہرا نہیں بلکہ ڈان اخبار کے ایک انوسٹیگیٹو صحافی ’’اختر بلوچ‘‘ کی ایک تحقیقاتی اسٹوری کا ہے جو انہوں نے روزنامہ ڈان میں ’’کلیم کیانی‘‘ کے نام سے شائع کی۔

اب بھلا ان سب چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی پوچھے آصف زرداری صاحب سے کہ اصل میں کون کس کو پال رہا ہے؟ کہیں آپ کو وہ میاجرین ہی تو نہیں پال رہے جنہوں نے اپنی جائیدادیں بھی آپ کی حوس کی بھینٹ چڑھائیں اور کوٹہ سسٹم کے نام پر اپنے وسائل بھی کھسوٹنے دئیے؟ لیکن ان سب کے باوجود آج حالات یہ ہیں کہ کراچی شہر آج بھی اپنے دامن میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ سمویا ہوا ہے جبکہ کئی سو سال پرانی تہزیب و تاریخ رکھنے والا اندرونِ سندھ آپکی غلامی اور جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔

وہ شہر جو کسی زمانے میں ٹینٹوں کا شہر کہلائے جاتا تھا، حقیقت یہ کہ آج اسکا ریونیو صوبہ سندھ کو چلانے کے لئے ۹۵ فیصد ہے۔ اور یہ مہاجرین کا مال ہی ہے جسکی بدولت آپ بلاول ہاوس کراچی پر سکھ بھری نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں۔

زرداری صاحب خوابِ غفلت سے باہر آئییں اور حقیقت دیکھیں کراچی آج ساری محرومیوں اور وسائل کے بگیر بھی ترقی کر رہا ہے اور ملک کو چلانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جبکہ آپ اور آپ کے اباو اجداد کی حیثیت صرف اتنی سی ہے کہ الیکشن جیتنا بھی آبکے بس میں خیرپور، لاڑکانہ وغیرہ سے ہے۔

آئیندہ جب اسمبلی میں کھڑے ہوکر مہاجروں پر طعنے کسنے لگیں تو اس سے پہلے یہ یاد کرلیجئیے گا یہ مہاجروں کی ہی زمینہیں تھی جس پر آج آپ کے والد صاحب نے بمبینو سنیما اور اندرون سندھ میں وڈیرانہ نظام قائم کیا ہوا ہے اور وہ بھی مہاجروں کے ہی حقوق تھے جسکے عوض آپکے اجدادوں نے سرکاری نوکریاں خریدیں۔ جب کبھی مہاجوں کو پالنے کی باتیں زبان سے نکلیں تو اسکو لگام دینے کیلئے اندرونِ سندھ کا یہ پاکستان کہ کسی اور شہر کا موازنہ کراچی سے کرلیجئے گا۔

اور ویسے بھی انگریزوں کے جوتے صاف کرنے والوں کو پال پوس کی باتیں زیب نہیں دیتی!

 

مزید بڑھئیے:

Has Karachi Became a Peaceful City?

Leave a Reply