پاکستان میں ایک مرتبہ پھر موسمِ دھرنا آنے کو ہے۔ ایسا لگ رہا ہے ہم ۲۰١۴ میں جی رہے ہیں۔ جس طرح ۲۰١۴ میں عمران خان اور اُن کی جماعت چودہ ماہ کی نومولود ن لیگ کی حکومت کے خلاف دھرنا دینے کی تیاری کر رہی تھی عین اُسی طرح ہی عمران خان کو بھی حکومت ملنے کے ١٥ ماہ بعد نئے دھرنا کا سامنا ہے۔ گویا یہ کہنا بلکل بھی غلط نہ ہوگا کہ خان صاحب نے جو بویا وہی کاٹنے جا رہے ہیں۔

لیکن اس مرتبہ دھرنے کی رہنمائی کوئی جذباتی سیاست دان یہ مشتعل عوامی گروہ نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کرنے کو ہے جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اُنکی پارٹی ہمیشہ دائیں بازو کی جماعت رہی ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو اور کسی کی بھی ہو وہ ہمیشہ مفاہمت کے تحت حکومت کے ساتھ جُڑ ہی جاتے ہیں۔

یہ اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کے مذہبی حلقے کے سب سے قدآور اور مدبر سیاستدان مولانا فضل الرحمان ہیں جنہوں نے اکتوبر کے اختتام میں حکومت کو گھر بھیجنے تک دھرنا دینے کی ٹھان لی ہے۔ مولانا کی اسٹریٹ پاور سے کسی کو کوئی انکار نہیں مگر حیران کن امر یہ ہے کہ مولانا کئی دہائیوں سے سیاست انجام دے رہے ہیں اور آج تک دھرنا احتجاج وغیرہ مولانا کی خلاف طبیعت ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے بر عکس مولانا نے ہمیشہ میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرنے کو ہی ترجیح دی ہے، مگر اللہ جانے مولانا اس دفعہ سب کو حیرن کرنے کے موڈ میں ہیں۔

جہاں تک حکومت کو گھر بھیجنے کی بات ہے، تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں حکومت کو گرانا یا گھر بھیجنا حکومت چلانے سے زیادہ آسان ہے، اور پاکستان کی تاریخ ایسے بے شمار قصوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مولانا بھی کسی نہ کسی طرح اس حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوجائینگے؟ اور اگر ہاں تو وہ کس طرح؟ اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے دیگر سیاسی اور اپوزیشن کی پارٹیز کو چھوڑ حکومت سے آزادی لینے کا بیڑا مولانا فضل الرحمان نے ہی کیوں اُٹھایا ہے؟

اسکا آسان جواب یہ ہے کہ اگر مولانا کے پاس سیاسی طور پر حیات رہنے کا موقع اگر کوئی ہے تو وہ یہ موجودہ لمحہ ہے، کیونکہ گذشتہ الیکشن کے بعد مولانا کا اسمبلی سے نکل جانا(گو کہ الیکشن کی شفافیت پر ہر ذی شعور بندے کو سوال ہے) اس بات کی نشاندہی تھی کہ آنے والے دو تین سالوں وہ سیاسی طور پر غیر متعلقہ ہونے والے ہیں جیسے آج عوامی نیشنل پارٹی ہوچکی ہے۔ لہذا اگر وہ ملکی سیاست میں اپنا دخل انداز چاہتے ہیں تو انہیں ہر صورت کوئی ایسا پولیٹیکل اسٹنٹ چاہئے جس سے وہ شہ سرخیوں میں بھی رہیں اور اخباروں اور ٹی وی کی زینت بھی بنے رہیں جسکی تلاش میں وہ اسلام آباد کا رخ کر رہے ہیں۔

گویا اگر دھرنا ناکام بھی ہو جس کا مطلب حکومت موجودہ حکومت چلتی بھی رہے تو کم از کم اس حکومت کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر دیے جانے والے دھرنے سے مولانا کی سیاسی طور پر فیولنگ ہوسکتی ہے جیسی پی ٹی آئی کی ۲۰١۴ کے دھرنے میں ہوئی تھی۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ آزادی مارچ سے ملنے والی آزادی کے خود امکانات کتنے کوشاں ہے؟ کیا مولانا وہ آشرواد حاصل کرلینگے جس کو پاکستان کی حکومت گرانے کے لئے لازمی سمجھا جاتا ہے؟ یہ پھر مولانا کو اسی آشرواد کو دینے کے لئے اسلام آباد بلایا جا رہا ہے؟ مولانا کے دھرنے سے کچھ ایسے نقطے جڑے ہیں جن پر نظر نہ ڈالنا بیوقوفی ہوگی۔

مولانا کے علاوہ دیگر اپوزیشن کا یہ خیال تھا کہ آزادی مارچ کو دسمبر تک کے لئے مؤخر کردینا چاہئے… اس کے بعد باقاعدہ حکومت کو گھر بھیجنے کی تحریک کو عملی جامہ پہنانا چاہئے جس سے مولانا نے اتفاق نہ کیا اور اپنا آزادی مارچ اکتوبر کے اختتام میں ہی رواں کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن آخر اپوزیشن دسمبر کے مہینے پر اتنا زور کیوں دے رہی تھی؟ ایسا کونسا راز ہے جسکے لئے اپوزیشن دسمبر تک انتظار کرنا چاہتی ہے؟ تو جواب ہے ایکسٹینشن! جی ہاں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنی مدت ملازمے پوری کیے تین سال آئیندہ مہینے نومبر میں ہونگے جس کے بعد وہ حکومت کی جانب ملنے والے ایکسٹینشن کی مد میں مزید تین سال کیلئے پاکستان کی آرمی کے سپہ سالار بنیں گے۔ لہذا اپوزیشن کا ماننا ہے جو کہ کسی صورت درست بھی ہے کہ کیونہ دھرنا دسمبر تک مؤخر کردیا جائے تاکہ اصل حکمران برقرار رہیں اور خان اور اُسکی گورمنٹ کی چھٹی ہوجائے۔ مگر لگتا کچھ اس طرح سے ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس سارے کھیل کو دوسری جانب سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ شاید سمجھ رہے ہیں کہ اگر اکتوبر میں حکومت کے خلاف کمر کس لی جائے تو وہ طبقہ جو اہکسٹینشن سے نا خوش ہے وہ کسی حد تک اپنا جھکاؤ اس دھرنے کی طرف کریگا، اور اس طرح مولانا اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اب اس سارے واقعات کے صرف دو پہلو ہیں، اول تو یہ کہ نکے دا ابا کسی صورت نہیں چاہینگے کہ حکومت کا خاتمہ کیونکہ اس سے انکے جاری ہونے والے ایکسٹینشن پر عملدرآمد میں مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے اور غیر یقینی کی صورت جنم لے سکتی ہے کہ آیا پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والا ایکسٹینشن کے نوٹیفکیشن پر کوئی اور حکومت عمل کرے گی یا نہیں۔ اب رہا دوسرا پہلو جو صرف اسی صورت عمل پذیر ہوسکتا ہے جب حکومت کا خاتمہ ہو‍۔ اور اگر فرض کرلیا جائے کا حکومت کا خاتمہ اس دھرنے سے ہوجائیگا تو آخر اس سے نتائج کیا اخذ کیے جائیں گے؟ اگر تو حکومت گر جانے کے بعد فوری الیکشن ہی ہونے ہیں تو پھر انتخابی اصلاحات کے بغیر اگلے الیکشن کا نتیجہ بھی سال ۲۰١۸ جیسا ہی ہوگا۔ اور اس سے بھی بڑا سوال اس الیکشن کی نگرانی اور اصلاحات کون کریگا؟ یا پھر مولانا نے دھرنا سے نظامَ حکومت مفلوج کردیا اور ساتھ ساتھ حکومت نے بھی نا مانی تو اس سیاسی بحران کا حل کیسے نکلے گا؟ یا پھر ماضی کی طرح جس میں تحریک نظام مصطفی وغیرہ کے احتجاج کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کی طرح قوم ایک اور مارشل لاء کی صورت میں "میرے عزیز ہم وطنو! ” سنے گی؟

خیر نتیجہ جو بھی ہو قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو۔ کیونکہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے منعقد کیے جانے والے دھرنے اور احتجاج سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ آرگنائزڈ اور جمِ غفیر پر ہوتے ہیں، لہذا ان کی طاقت اور اثر کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے زیادہ ہوتا ہے۔

ایک اور امر اس دھرنے سے متعلق جے یو آئی ایف کی جانب سے سیاسی مسائل کی بجائے عمران خان اور انکی حکومت کے خلاف مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے یہ روایت بن گئی ہے کہ کسی بھی حریف کو زمین بوس کرنا ہو تو اس کے خلاف مذہب کا استعمال شروع کردو جس میں توہینِ مذہب سے لے کر یہودی ایجنٹ تک کے فتوے بلا دریغ جاری کرنا ہے۔ اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مذہب کے بے جا اور غلط استعمال کے نتیجے میں پاکستان نے کس قدر مذہبی انتہاپسندی کا مظاہرہ دیکھا ہے۔ پھر چاہے وہ احسن اقبال ہوں یا جنید جمشید یا پھر امجد صابری وغیرہ ہر کوئی اس آگ کا شکار بن چکا ہے۔

لہذا اگر مولانا اپنے آپ کو سیاسی بالغ اور ایک مدبر سیاستدان سمجھتے ہیں تو انہیں مذہب کے استعمال کی بجائے ان اہم نکتوں کا اٹھانا چاہیے جسکی موجودہ حکومت نے دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں ہیں۔ ورنہ مذہب کے استعمال کے ذریعے حکومت گرانا کوئی بڑی بات نہیں۔

اسی مذہب کی آگ کا استعمال کرکے ہندوتواؤں نے بابری مسجد شہید کی تھی۔ خمینی نے ایران کا انقلاب برپا کیا تھا، ہٹلر نے یہودیوں کا صفایا شروع کیا تھا، اور پاکستان میں مسلمانوں نے آپس میں فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں ایک دوسرے کو قتل کیا تھا، اب مولانا عمران خان کو یہودیوں قادیانیوں کا ایجنٹ کہہ کر حکومت گرادیں تو کوئی کمال کی بات نہیں۔

چنانچہ امید کرتا ہوں کہ مولانا اہم سیاسی اور آئینی جدوجہد کے پہلؤں کو اجاگر کرکے حکومت کے خلاف مارچ کرینگے اور مجھ سمیت کئی اور لوگوں کو حیران کرکے خود اپنے آپ کو مینسٹریم سیاست کا حصہ بنائیئنگے۔ ایک اور بات یہ کہ اگرچہ مولانا کے پاس اس دھرنے میں کچھ کھونے کے لئے نہیں مگر صورتحال نازک ضرور ہے۔ کیونکہ اگر مولانا اپنے مقاصد حاصل کرنے مین ناکام ہوئے تو اس ناکامی کا سارا ملبہ مولانا کی سیاسی کیرئیر پر ہی گرے گا، اور اگر مولانا کامایاب ہو بھی گئے تو اس کامیابی کے سب سے بڑے شئیر ہولڈر مسلم لیگ ں اور پی پی پی ہونگے۔ مجھ جیسے سیاسی بےوقوف کے نزدیک مولانا کے دھرنے سے مولانا کو اتنا یی فائدہ ہوگا جتنا کراچی کو ہزار ارب ٹیکس کی مد میں دینے کے بعد ہوتا ہے۔

مزید پڑھئیے:

بلدیاتی حکومت کی طاقت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟

 

Leave a Reply